لاہور پریس کلب کے موجودہ صدر 51 سالہ اعظم چودھری کا صحافتی کیریئر 31برسوں پر محیط ہے۔ بے داغ کردار کے مالک، ہردلعزیز، ملنسار اور تمام ممبران اور صحافتی برادری کے لیے ہمیشہ سراپا خلوص رہتے ہیں۔ ہمہ وقت کلب کے کسی بھی ممبر کے ذاتی یا اس کے ادارے کے حوالے سے کسی مسئلے کے حل کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔ کسی بھی تنازعہ میں نہیں الجھے اور نہ ہی انہوں نے لاہور پریس کلب کی گروپ بندی کو سیاست کی نذر ہونے دیا ہے۔ان سے کیا گیا انٹرویو قارئین کی نذر ہے۔
دوسری بار جب آپ نے لاہور پریس کلب کے صدر کا عہدہ سنبھالا تو آپ کو کیا چیلنجز درپیش تھے؟
سب سے بڑا چیلنج جو درپیش تھا وہ یہ تھا کہ پریس کلب کا اکاؤنٹ بالکل خالی تھا۔ سابقہ باڈی نے آخری جنرل کونسل کے اجلاس میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہم 90لاکھ روپے کلب کے اکائونٹ میں چھوڑ کر جا رہے ہیں جب کہ اکائونٹ میں محض 9ہزار سات سو روپے تھے۔ تقریباً ایک کروڑ روپے کا خسارہ واجب الادا تھا۔ جس کا ہمیں سامنا کرنا پڑا۔ 34لاکھ روپے بجلی کا بل تھا جو دسمبر میں ادا کرنا تھا، وہ ادا نہیں کرایا گیا تھا۔ کلب کے سٹاف کی دو ماہ کی تنخواہ 21لاکھ روپے تھی جو نہیں دی گئی تھی۔ دیگر متفرق اخراجات سمیت ایک کروڑ روپے کی ادائیگی کرنا ضروری تھا۔ گورنمنٹ آف پنجاب سے جو 2کروڑ روپے کی گرانٹ ملنی تھی وہ جون 2004ء کے بجٹ میں 50لاکھ روپے کر دی گئی یعنی منہا کر دی گئی۔ شدید مالی بحران کا سامنا تھا۔ مختلف اسپانسرز تلاش کیے۔ کچھ نہ کچھ اپنی جیب سے ڈالے اور کسی نہ کسی طور پریس کلب کے معاملات چلائے۔
’’ہمیں سب سے زیادہ بزدار حکومت اور بعدازاں حمزہ شہباز کی حکومت نے شدید مایوس کیا۔ بزدار حکومت نے 6 مرتبہ وعدہ کیا کہ آپ کی گرانٹ بحال کر دیں گے۔ اعلانات بھی ہوئے مگر قطعی وعدہ ایفا نہ ہوا۔ حمزہ شہباز جب وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے تو میں نے تین مرتبہ ان سے براہ راست ملاقات کی۔ انہوں نے کہا کہ 24 گھنٹے میں لاہور پریس کلب کی گرانٹ بحال ہو جائے گی مگر ایسا نہ ہوا۔ اب چوہدری پرویز الٰہی وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے ہیں۔ ان کی ایک وجہ شہرت میڈیا سے دوستی بھی ہے۔ انہوں نے فی الفور گرانٹ بحال کر دی ہے۔ جو امید ہے جلد مل جائے گی۔ لاہور پریس کلب کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ پریس کلب شدید مالی بحران کا شکار ہوا یا اسے کیا گیا۔ 2018ء میں جب میں پریس کلب کا صدر منتخب ہوا تھا تو بزار حکومت سے سالانہ گرانٹ 50 لاکھ روپے سے 2 کروڑ روپے کرنے کی درخواست کی تھی۔ یہ ریکارڈ پر ہے کہ سابقہ باڈی کو دو کروڑ روپے کی گرانٹ دی گئی۔ لیکن جب سابقہ باڈی رخصت ہو رہی تھی تو یہ مسائل سامنے آئے۔ میں یہاں پوائنٹ اسکورنگ نہیں کر رہا ہر چیز ریکارڈ پر ہے۔
آپ نے ان ناموافق حالات کو کیسے سنبھالاہے؟
آپ کے سامنے ہے۔ ہم نے کسی نہ کسی طور پر معاملات کو سنبھالا ہے، تمام بل ادا کیے۔ ملازمین کی تنخواہیں جو دو ماہ کی بقایا تھیں۔ وہ ادا کی اور اب ایک ماہ کی تنخواہ بقایا ہے۔ کیفے ٹیریا کی سبسڈی ماہانہ ساڑھے آٹھ لاکھ روپے بھی کسی نہ کسی طور پر ادا کر رہے ہیں۔ مالی بحران کے باوجود کلب بند تو نہیں ہوا اور نہ ہی ہم پیچھے ہٹے۔ کلب کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ ورکشاپس ہو رہی ہیں، سیمینار، مشاعرے اور دیگر سرگرمیاں باقاعدگی سے ہوتی ہیں۔ جہاں تک آڈٹ کا مسئلہ ہے تو وہ گذشتہ تین سال سے نہیں ہوا۔ آڈٹ فرم کو ادائیگی کرنا ہوتی ہے اور اب یہ فیصلہ ہوا ہے کہ سابقہ اور موجودہ دونوں ادوار کا آڈٹ کرایا جائے گا۔ ہمیں ایک پروفیشنل اکائونٹنٹ کی بھی ضرورت ہے۔ اس وقت ہم مزید اخراجات یا نئے ملازم کو تنخواہ ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں لیکن گرانٹ ملنے کے بعد ایسا ممکن ہو سکے گا۔
لاہور پریس کلب میں ممبران کی اسکروٹنی کے حوالے سے آج تک کچھ نہیں ہوا حالانکہ اس کی شدید ضرورت ہے۔ آپ کی کیا رائے ہے؟
اس بارے میں اتنا کہوں گا کہ 2020-21ء میں دوبار اسکروٹنی کمیٹیاں بنائی گئیں۔ جنہوں نے پانچ چھ ماہ کام کرکے اپنی رپورٹ جمع کرا دی لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوا۔ اب ٹائم گزر چکا ہے۔ اب اگر ہم اسکروٹنی کا اعلان کرتے ہیں تو اسے ’سیاسی فائدہ‘ حاصل کرنے سے تعبیر کیا جائے گا۔ اس لیے یہ وقت مناسب نہیں ہے۔ تین ماہ بعد پریس کلب کے الیکشن ہیں۔ میرے خیال میں جنوری فروری میں اسکروٹنی کے عمل کا آغاز ہونا چاہیے اور مارچ تک یہ تمام عمل مکمل ہونا ضروری قرار دیا جائے۔
پریس کلب میں نئی ممبرشپ کی وجہ سے تعداد میں اضافہ ہو رہا جبکہ وسائل کم پڑتے جا رہے ہیں۔ کیانئی ممبرشپ کو روک دینا چاہیے؟
آج میڈیا بہت وسیع ہو چکا ہے۔ جب لاہور پریس کلب کا قیام عمل میں لایا گیا تھا تو یہ محض ساڑھے تین سو ممبران کے لیے تھا۔ آج لاہور پریس کلب کے ساڑھے تین ہزار کونسل ممبران ہیں۔ہمیں آئین میں ترمیم کرنے کی ضرورت ہے جو غیر ملکی میڈیا فورم یا آرگنائزیشنزہیں، ان میں کام کرنے والے پاکستان اور لاہور میں موجود جرنلسٹ، لاہور پریس کلب کا حصہ بننے کے خواہشمند ہیں۔ علاوہ ازیں سوشل میڈیا ایک متوازی میڈیا فورم کی شکل میں سامنے آ چکا ہے۔ نئی ممبرشپ کرتے ہوئے ان تمام عوامل کو دیکھنا پڑے گا۔ آئندہ جو بھی باڈی منتخب ہو وہ آئین میں ترمیم کرتے ہوئے نئی ممبرشپ کے حوالے سے ایک متفقہ لائحہ عمل تشکیل دے۔
کیا آپ آئندہ بھی صدر کے عہدہ کے امیدوار کے طور پر لیکشن میں حصہ لیں گے؟
میں نے کبھی منصوبہ بندی کے تحت الیکشن میں حصہ نہیں لیا۔ میرے آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کا انحصار اس بات پر ہے کہ اگر کوئی ایسا پلان جاری ہے، جس میں میری ضرورت ہے تو ممکن ہے میں الیکشن میں حصہ لوں اور اپنے موجودہ عہدے کو دہرائوں لیکن یہ حالات، گروپ کے سینئرز کی مشاورت اور باہمی رضامندی سے ممکن ہوگا۔ میں نے ہمیشہ کلب کے الیکشن میں وقفہ دینے کو ترجیح دی۔ تسلسل کے ساتھ کسی عہدے پر رہنا میرا مطمع نظر نہیں رہا۔ میری یہ خواہش نہیں ہے کہ میں بار بار لاہور پریس کلب کا صدر بن کر کوئی ریکارڈ بنائوں اور اپنے نام کے بڑے بڑے بورڈ آویزاں کروں۔ میرے لیے ہمیشہ اپنی صحافی برادری کے حقوق کا تحفظ اول ترجیح اور بڑا مقصد ہے۔ آج بھی جس وقت یہاں کلب میں موجود ہوتا ہوں پریس کلب کے ممبران آتے ہیں جن کے اپنے اداروں کے یا نجی مسائل ہوتے ہیں۔ میں ہر ممکن کوشش کرتا ہوں کہ ان کے مسائل حل کروں ان سے کوئی جھوٹا وعدہ نہ کروں۔ میں 1999ء میں پہلی مرتبہ لاہور پریس کلب کا سیکرٹری منتخب ہوا تھا۔2011ء میں دوبارہ سیکرٹری ہوا۔ 2018ء میں پہلی مرتبہ لاہور پریس کلب کا صدر منتخب ہوا اور2022ء میں مجھے میرے دوستوں اور ممبران نے دوسری مرتبہ یہ اعزاز دیا ہے۔
آپ نے صحافت کی دنیا میں کب اور کیسے قدم رکھا؟
میں نے 1990ء میں صحافت میں قدم رکھا تھا اور اسے بطور پیشہ اختیار کیا تھا۔ اس کی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ اس وقت میں پنجاب یونیورسٹی میں ایم اے ہسٹری کا طالب علم تھا۔ لاہور میں روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کا آغاز ہونے جا رہا تھا۔ جس کے لیے ایک ٹیسٹ کا انعقاد کیا گیا۔ اپنے دوستوں کے ساتھ میں بھی ٹیسٹ دینے پہنچ گیا۔ اس وقت صحافی اور صحافت کے بارے میں ذہن میں ایک دلکش تصور تھا۔ ٹیسٹ میں پاس ہو گیا اور میں نے روزنامہ ’’پاکستان‘‘ جوائن کر لیا۔ بعدازاں ضیاء شاہد نے اپنا اخبار روزنامہ’’خبریں‘‘ شروع کیا تو ان ہی کی دعوت پر’’خبریں‘‘ جوائن کر لیا۔ کچھ عرصہ بعد واپس روزنامہ ’’پاکستان‘‘ میں چلا گیا۔ 31دسمبر1995ء کو روزنامہ ’’پاکستان‘‘ سے استعفیٰ دے دیا اور روزنامہ ’’صداقت‘‘ کو بطور چیف رپورٹر جوائن کر لیا۔ جس کے ایڈیٹر معروف صحافی عباس اطہر تھے۔ جو بعدازاں شام کو شائع ہونے والے اخبار’’صحافت‘‘ میں چلے گئے۔ وہاں نوید چودھری چیف نیوز ایڈیٹر تھے۔
میں نے ان ہی کی دعوت پر روزنامہ ’’صحافت‘‘ میں بطور چیف رپورٹر کام شروع کر دیا۔ شام کے اخبار میں کام کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ صبح چار بجے آفس میں اپنی حاضری کو یقینی بنانا اور پھر دس بجے تک کام مکمل کرنا۔ زندگی کے معمولات تبدیل ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس اثنا میں روزنامہ ’’جنگ‘‘ سے آفر آئی تو بطور کرائم رپورٹر ’’جنگ‘‘ جوائن کر لیا۔ وہاں میرے ساتھ مجاہد جعفری بھی تھے۔ جنگ گروپ کا کراچی سے شائع ہونے والا ایک اخبار’’عوام‘‘ ہے۔ جس کے ایڈیٹر محمودشام تھے۔ اس وقت ’’عوام‘‘ کے لاہور سے کارسپانڈنٹ مقصود بٹ ہوا کرتے تھے۔ جن کی جگہ مجھے کارسپانڈنٹ بنا دیا گیا اور انہیں ’’جنگ‘‘ لاہور میں ٹرانسفر کر دیا گیا۔ کارسپانڈنٹ ’’عوام‘‘ کی خبر جنگ گروپ کے دیگر اخبارات کی زینت بھی ہوا کرتی تھی۔ ’’عوام‘‘ کے گروپ ایڈیٹر اطہر مسعود تھے۔ ان کے کہنے پر ہی میں نے روزنامہ ’’عوام‘‘ میں کام کیا تھا۔ اب ایک نیا موڑ آتا ہے اُسی زمانے میں ہمیں اپنا خبار نکالنے کا شوق ہوا ۔ کسی سوچ بچار یا مشورے کے بغیر ہم اس ’’آگ‘‘ میں کود پڑے۔ میرے ساتھ طاہر مجید تھے۔ میرے پاس جو جمع پونجی تھی وہ سب میں نے اخبار میں لگا دی۔ اخبار کا نام روزنامہ’’روزانہ اخبار‘‘تھا۔ اس وقت نوازشریف اور میر شکیل الرحمن کے درمیان کسی معاملے پر جھگڑا چل رہا تھا۔ نوازشریف وزیراعظم تھے۔ اس نے ’’جنگ ‘‘اخبار کوکچلنے کے لیے تمام حربے استعمال کیے اور ایف آئی اے کو یہ احکامات جاری کیے کہ یہ اخبار کسی بھی طرح شائع نہیں ہونا چاہیے۔ اس وقت ’’جنگ‘‘ اخبار سڑکوں پر دو دو روپے کا فروخت ہوا۔ کسی نہ کسی طور پر کسی پریس سے وہ چھپ جاتا تھا۔ ہمارا اخبار پانچ روپے کا تھا ، اسے کون پوچھتا۔ سو ہمیں بے پناہ نقصان ہوا۔ مجبوراً اخبار کو بند کرنا پڑا۔ کاغذ کے پیسے، ملازمین کی تنخواہیں تمام قرضے کچھ مدت کے بعد ادا کرنے کے قابل ہوئے۔‘‘
’’1998ء میں روزنامہ ’’دن‘‘ جوائن کر لیا۔ صحافتی حلقوں میں ہمارے خلاف پراپیگنڈہ کیا گیا کہ ہم نے اپنا اخبار بند کرکے ملازمین کو تنخواہیں نہیں دیں۔ اس صورت حال میں لاہور پریس کلب کے انتخابات میں پہلی بار حصہ لیا۔ میں سیکرٹری کے عہدے کے لیے امیدوار تھا جب کہ ثقلین امام جو آ جکل بی بی سی لندن میں کام کر رہے ہیں، وہ صدر کے امیدوار تھے۔ روزنامہ ’’دن‘‘ کے مالک محمود صادق نے اس الیکشن میں دخل اندازی کی کوشش کی تھی مگر ہماعلی نے انہیں ٹوک دیا کہ یہ آپ کا کام نہیں ہے ہمیں مشورہ دیں کہ ہم نے کیسے اور کہاں الیکشن میں حصہ لینا ہے۔ میرے نزدیک ہما علی کا یہ اقدام بہت اچھا تھا۔ لہٰذا ثقلین امام لاہور پریس کلب کے صدر منتخب ہو گئے اور میں پہلی بار سیکرٹری منتخب ہوا۔یہ ہے وہ تمام روداد کہ میں حادثاتی طور پر یا اتفاقیہ صحافت میں آ گیا۔ تاریخ کہیں پیچھے رہ گئی۔
آپ کے خیال میں صحافت کاروبار ہے یا مشن؟
میرشکیل الرحمن نے ایک بار کہا تھا کہ ’’میں جرنلزم نہیں کاروبارکرتا ہوں۔‘‘ میں یہ کہتا ہوں کہ ہم پہلے جرنلزم کرتے تھے اب ہم نوکری کرتے ہیں۔2018ء میں جب میڈیا کا بحران آیا تو ہزاروں کارکنان بے روزگار ہو گئے تھے۔ تو تھائی لینڈ کا ماڈل اپنایا گیا تھا کہ بظاہر میڈیا آزاد ہے مگر کنٹرولڈ ہے۔ پہلے میڈیا کے مالکان تقسیم ہوئے، پھر ورکرز تقسیم ہو گئے۔ آج آپ بخوبی جان جاتے ہیں کہ کون سا اینکر، کالم نگار یا صحافی کس کی ترجمانی کیوں کر رہاہے۔ایک فرق ضرور پڑا ہے کہ نظر نہ آنے والی سنسرشپ کا مقابلہ سوشل میڈیا نے کیا ہے۔ اب بیشتر میڈیا ہائوسز بھی سوشل میڈیا پر منتقل ہو رہے ہیں۔ اس کی حال ہی میں وقوع پذیر ہونے والی ایک مثال سے واضح ہوتا ہے۔ عمران خان کا جلسہ ہوا۔ بیشتر چینل نہیں دکھاتے۔ پیمرا بھی اسے دکھانے پر پابندی عائد کر دیتا ہے۔ لیکن آپ کو سوشل میڈیا پر عمران خان کی تقریر دکھائی دے گی۔ میڈیا مالکان کو سوشل میڈیا پر لائیکس پر لاکھوں ڈالرز میں پیسہ مل جاتا ہے۔میڈیا کو سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ(ن) نے پہنچایا ہے کیونکہ جب یہ اقتدار میں ہوتے ہیں تو کسی کے نہیں ہوتے۔ مشرف نے الیکٹرانک میڈیا کاآغاز کیا تھالیکن اسی کے دور میں ہی اس پر سب سے زیادہ تنقید بھی ہوئی۔ زرداری پر تنقید ہوئی۔ لیکن انہوں نے صحافیوں کو غائب نہیں کیا۔ البتہ 2018ء میں پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ نے میڈیا کو بہت نقصان پہنچایا ہے اور موجودہ دور اس کی بدترین مثال ہے۔
صحافی کالونی فیز2کے امیدوار شدت کے ساتھ کسی بڑی پیش رفت کے منتظرہیں۔ اس حوالے سے کچھ بتائیں؟
ایف بلاک میں ڈویلپمنٹ مکمل کرا دی ہے۔ اس کے ساڑھے تین سو پلاٹ عنقریب دینے جا رہے ہیں۔ فیز 2جو لگ بھگ 1600ممبران کو ملنا ہیں۔ وہ تاحال نہیں ملے۔ گورنمنٹ کو درخواست دی تھی کہ دو ہزار پلاٹ درکار ہیں کیونکہ بیس فیصد کوٹہ ڈی جی پی آر اور پی ٹی وی کا ہوتا ہے۔ فیز ٹو کے لیے تین ہزار کنال جگہ درکار ہے جو شہر کے نزدیک نہیں ہے۔ اگر جگہ نہ ملی تو فلیٹ مل جائیں گے۔ پنجاب حکومت سنجیدگی کے ساتھ اس پر سوچ بچار کر رہی ہے۔ ہماری جانب سے بھی اس کو فوکس کیا جا رہاہے۔ ہم قطعی اسے الیکشن کا نعرہ نہیںبنائیں گے۔ ہر کام اپنی رفتار ،وقت اور تمام عوامل کے تحت مکمل ہوتا ہے۔ ایف بلاک تیار ہے، فیز ٹو بھی مل جائے گا۔‘‘
صدر لاہور پریس کلب اعظم چودھری نے موجودہ سال جو کام کیے۔
ان میں قابل ذکر جو ہیں وہ درج ذیل ہیں۔
1۔ صحافی کالونی کے اندر گیٹ میں داخلے کے ساتھ ملحقہ36کروڑ روپے مالیتی بارہ کنال پر مشتمل پلاٹوں پر قبضے کی کوششوں کو دو مرتبہ ناکام بنا دیا اور اے بلاک سے ای بلاک تک تمام حکم امتناعی ختم کرائے۔
2۔ صحافی کالونی پارک کی تزئین و آرائش میں اضافہ کیا تاآنکہ فیملیز کو خوش گوار ماحول میسر آ سکے۔ سیوریج کے مسائل حل کیے۔ واٹرسپلائی اور سیوریج کی بحالی کے لیے واساحکام کو خصوصی توجہ دینے کے لیے کہا اور اسے یقینی بنایا۔
3۔ لاہور پریس کلب میں شجرکاری، ٹیوب ویل ،ڈسپنسری اپ گریڈیشن ،مستند ڈاکٹر کی تقرری اور ادویات کی فراہمی ان ہی کے دور میں ہوئی۔
4۔ دو کروڑ روپے کی گرانٹ کی بحالی جو موجودہ باڈی کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔
5۔ لاہور پریس کلب میں چلڈرن فیسٹول دیگر ثقافتی تہواروں کا انعقاد اور فیملی کلب بنانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ جسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔
ایک مدبر کا قول ہے کہ ’’عام افراد کی خواہشیں اور امیدیں ہوتی ہیں ، بڑے لوگوں کے مقصد اور پلان ہوتے ہیں۔ جن کے لیے وہ جدوجہد کرتا ہے۔‘‘ اعظم چودھری کے نزدیک بڑا مقصد صحافی برادری کے لیے کام کرنا اور ان کا پلان لاہور پریس کلب اور اس کی رہائشی کالونی کے لیے ایک بہتر اور خوشگوار ماحول فراہم کرنا ہے۔ اور اپنے اسی کام کے توسط سے انہوں صحافت کو وقار دیا ہے ۔ بہت کم صحافی اس پیشے میں ایسے ہیں جو اس روشن سوچ کے ساتھ زندگی کا سفر طے کرتے ہوئے پیشہ وارانہ امور انجام دیتے ہیں۔اعظم چودھری کا شمار انہی صحافیوں میں ہوتا ہے۔
طاہر اصغر مصنف و صحافی ہیں ان کی دلچسپی کے موضوعات پروفائل اور آپ بیتی لکھنا ہے۔ وہ جالب بیتی اور منٹو فن و شخصیت کی کہانی کے مصنف ہیں۔ زیر طبع ناول ’’قصہ غوغا غٹرغوں‘‘ ہے ۔موسیقی اور ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔