گزشتہ دنوں ایک کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال صاحب نے ریمارکس دیے کہ اگر الیکشن کے انعقاد میں بدنیتی نظر آئی تو مداخلت کریں گے۔ چونکہ چیف جسٹس صاحب انتخابات کے حوالے سے کیس کے فیصلے میں 90 روز میں انتخابات کروانے کا فیصلہ دے کر اپنا ذہن ظاہر کر چکے ہیں تو اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے کہنے کا کیا مطلب ہے۔ یعنی وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ 90 روز میں انتخابات نہ کروائے گئے تو یہ بدنیتی ہو گی۔ میری نظر میں چیف جسٹس کا نکتہ اہم ہے لیکن انصاف کے ترازو کا جھکاؤ کچھ زیادہ ہی کسی ایک جانب کو ہے۔ کچھ لوگوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ چیف جسٹس کے پاس کون سا ایسا پیمانہ ہے جو نیتوں کی جانچ کرے گا۔ بات آئین و قانون کی خلاف ورزی تک ہوتی تو ٹھیک تھا لیکن نیتوں میں فتور کیسے ماپا جائے گا اور کیسے پتہ چلے گا کہ کسی شخص یا ادارے کا الیکشن کروانے سے معذرت کرنا یا انتخابات کو التوا کا شکار کرنا بدنیتی پر مبنی ہے؟
لیکن میں اس نکتہ نظر کا حامی نہیں ہوں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص غیر جانبداری سے آئین و قانون کو مدنظر رکھ کر حالات و واقعات کے تناظر میں کسی شخص یا ادارے کے طرز عمل پر غور و فکر کرے تو بدنیتی کا پتہ چلایا جا سکتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ چیف جسٹس صاحب کو صرف ایک فریق کی جانب سے بدنیتی کا خدشہ ہے اور وہ بدنیتی جو ابھی وقوع پذیر بھی نہیں ہوئی جبکہ دوسری جانب کی کھلم کھلا بدنیتی چیف صاحب کو نظر نہیں آتی۔ وجہ نا معلوم ہے!
میں چیف جسٹس سے سوال کرتا ہوں کہ مسلسل خاص قسم کے کیسز میں ایک ہی جیسا بنچ تشکیل دیتے رہنا کیا بدنیتی ثابت نہیں کرتا؟ کیا عمران خان کا دو صوبائی اسمبلیاں صرف اس لئے تحلیل کرنا تا کہ پی ڈی ایم اپنی وفاقی حکومت تحلیل کر کے جنرل الیکشن کروانے پر مجبور ہو جائے، کیا یہ بدنیتی نہیں؟ کیا سی سی پی او ڈوگر کیس کو گھسیٹ کر صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن کے لئے ازخود نوٹس میں تبدیل کر دینا بدنیتی نہیں؟ نگران حکومت کو پی ٹی آئی اور پرویز الہیٰ کے لگائے گئے افسران کے تبادلے کر کے لیول پلیئنگ فیلڈ بنانے سے روکنا بدنیتی نہیں؟ اگر نگران حکومت آزادانہ طور پر پچھلی حکومت کے لگائے افسران کے تبادلے نہیں کر سکے گی تو ایسی نگران حکومت کا مقصد پھر کیا ہو گا؟ کیا تقرریاں اور تبادلے کرنا صرف پی ٹی آئی حکومت کا اختیار ہے؟ آئین میں یہ کہاں لکھا ہے کہ عمران خان کی حکومت کے علاوہ باقی سب حکومتیں بدنیت ہیں؟ کیا نگران حکومت کو مفلوج کرنا بدنیتی نہیں؟ کیا یہ بدنیتی نہیں کہ عمران خان کے علاوہ کوئی بھی اگر عدالت میں اونچا بول دے تو ججز غصے میں آ جاتے ہیں، کوئی لیٹ ہو جائے تو ضمانت کینسل کرنے کی دھمکی دے دی جاتی ہے اور دوسری طرف عمران خان کی کھلم کھلا دہشت گردی اور جتھہ بندی کے آگے سر جھکانا کیا یہ بدنیتی نہیں؟
اگر آپ کی نیت ٹھیک ہے تو میری نظر میں پہلے تو آپ کو اس سوال پر غور کرنا چاہئیے کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں کس کے کہنے پر اور کیوں تحلیل کی گئیں؟ اس کے بعد دوبارہ الیکشن کروانے پر بات ہونی چاہئیے تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس جماعت نے اسملیاں توڑیں وہی دوبارہ الیکشن کروانا چاہتی ہے اور باقی تمام جماعتیں اکتوبر میں پورے ملک میں ایک ساتھ الیکشن چاہتی ہیں۔ تحریک انصاف کا یہ عمل کس طرح جسٹیفائی ہو سکتا ہے؟ آپ ہی بتا دیں۔
؎آپ ہی اپنے ذرا جور و ستم کو دیکھیں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
فرض کر لیں اگر آج دوبارہ انتخابات ہو جاتے ہیں اور دوبارہ تحریک انصاف جیت جاتی ہے تو اس سے تحریک انصاف کو کیا حاصل ہو گا؟ آخر آپ کو یہ سوال تو اٹھانا چاہئیے تھا کہ جس جماعت کو دو صوبوں میں دوبارہ الیکشن کروانے کی جلدی ہے اور ظاہر ہے جس کو جلدی ہے وہ الیکشن ہارنے کی جلدی تو نہیں ہو گی، الیکشن جیتنے کی جلدی ہو گی تو کیا یہ سوال نہیں بنتا کہ آخر آپ نے اپنی حکومت ختم ہی کیوں کی تھی؟ دوبارہ الیکشن کے نتیجے میں بھی آپ کو اگر حکومت ہی ملنی ہے اور آپ نے دوبارہ جیت کر انہی اسمبلیوں میں دوبارہ آ کر بیٹھنا ہے تو پھر اسمبلیاں توڑنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟
حضور یہ ہے وہ بدنیتی جس کی سہولت کاری آپ آئین کی 90 دن کے اندر انتخابات کروانے والی شق کی آڑ میں کرنا چاہتے ہیں۔ اگر آپ کی نیت ٹھیک ہے تو آپ کو اس بات کا جواب بھی دینا ہو گا کہ اگر آج دو صوبوں میں الیکشن کروا دیے جاتے ہیں تو اکتوبر میں عام انتخابات کے دوران نگران حکومتیں کیسے اور کس قانون کے تحت قائم ہوں گی؟ جبکہ دو صوبوں میں نئی اسمبلیاں وجود میں آ چکی ہوں گی جن کی مدت پانچ سال ہو گی۔ ان دو صوبائی حکومتوں کی موجودگی میں عام انتخابات کس طرح شفاف اور غیر جانبدار کہلائیں گے؟
ان حالات و واقعات کو مدنظر رکھا جائے تو عدالت کو 90 روز میں الیکشن کروانے کا حکم دینے کے بجائے دونوں صوبائی اسمبلیاں بحال کرنے کا حکم دینا چاہئیے تھا کیونکہ جو جماعت متاثرہ فریق بن رہی ہے دوبارہ الیکشن کی صورت میں بھی زیادہ سے زیادہ ان کو یہی حاصل ہو گا کہ ان کی حکومت قائم ہو جائے گی۔ بس فرق یہی ہوتا کہ مدت پانچ سال کے بجائے اکتوبر تک ہو گی اور پھر اکتوبر میں عام انتخابات بھی نگران حکومت کے نیچے ہو جاتے۔ نہ آئین شکنی ہوتی، نہ بدنیتی شامل ہوتی۔ حضور بحران تو آپ نے خود پیدا کیا ہے جبکہ آپ کے ساتھی ججز کہتے رہے کہ آپ کو پہلے اسمبلیوں کی تحلیل کو دیکھنا چاہئیے لیکن آپ نے کسی کی نہیں سنی۔ آخر کیوں؟
اس کے علاوہ بھی بہت سے سوال اٹھتے ہیں۔ فرض کر لیں اگر کسی ایک جماعت کو ان دو صوبوں میں بھاری اکثریت مل جاتی ہے تو کیا ان الیکشن کے نتائج کا اثر اکتوبر میں ہونے والے عام انتخابات پر نہیں پڑے گا؟ جب لوگوں پر پہلے ہی واضح ہو جائے گا کہ کون سی جماعت کا پلڑا بھاری ہے اور کس کی حکومت آنے والی ہے تو ایسے ماحول میں ریاستی مشینری کس طرح آزادانہ کام کر سکے گی اور عوام کسں طرح آزادانہ ووٹ کاسٹ کریں گے؟ ماضی میں لاڈلوں کو تو اس بات پر بھی اعتراض ہو گیا تھا کہ نواز شریف نے رات 12 بجے وکٹری سپیچ کیوں کر دی؟ جبکہ اس وقت واضح ہو چکا تھا کہ نواز شریف الیکشن جیت چکے ہیں۔ 70 فیصد سے زائد نتائج آ چکے تھے ایسے میں وکٹری سپیچ کی زیادہ اہمیت نہیں تھی۔ اسی طرح کے اور بھی بہت باریک سوال پیدا ہوتے ہیں مگر سب کا ذکر ممکن نہیں۔
اس کے علاوہ یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ انتخابات سے سیاسی استحکام آ جائے گا تو کیا وہ لوگ عمران خان کی گارنٹی لے سکتے ہیں کہ وہ انتخابات کے نتائج کو تسلیم کر لیں گے؟ باقی جماعتوں کی تو طویل تاریخ ہے۔ انہوں نے بدترین انتخابی نتائج کے باوحود سیاسی انتشار پیدا کرنے سے گریز کیا اور پارلیمان کا حصہ بنے لیکن عمران خان کی یہ تاریخ رہی ہے کہ وہ تھوڑا سا بھی برا وقت آنے پر سب سے پہلے اسمبلیوں سے استعفیٰ دے دیتے ہیں اور پھر اسمبلیوں پر حملہ آور ہو جاتے ہیں جس سے سیاسی انتشار جنم لیتا ہے۔ کون ہے اس ملک میں جو عمران خان کی گارنٹی لے سکتا ہے؟ اگر کوئی ہے تو سامنے آئے۔
مصنف کیمسٹری میں ماسٹرز ہیں، اور کراچی یونیورسٹی میں ابلاغیات کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔