قومی اسمبلی میں ریپسٹ کے لیے پھانسی کا مطالبہ، اراکین کی انا کی تسکین کا ذریعہ بن گیا

قومی اسمبلی میں ریپسٹ کے لیے پھانسی کا مطالبہ، اراکین کی انا کی تسکین کا ذریعہ بن گیا
کل سے قومی اسمبلی کا اجلاس جاری ہے۔ اور سانحہ رنگ روڈ پر ہر ممبر  اپنے درد بھرے جذبات کا اظہار کر رہا ہے۔ ایک دو ممبران بات کرتے تو بہتر ہوتا۔ کیونکہ ساری گفتگو الزمات دھرنے پہ مبنی ھے۔ بس سخت سزاؤں پہ ایوان متفق نظر آتا ہے۔ پی ٹی آئی  بڑی چالاکی سے سزاؤں کے ایشو  کو exploit کر رہی ہے ۔

حیرت ہوئی کہ سپیکر قومی اسمبلی مقررین کو روک کر بار با پوچھتے رہے کہ ملزمان کو ( کیونکہ ابھی جرم ثابت نہیں ہوا) سر عام پھانسی پہ لٹکانے پر مقررین کی کیا رائے ہے اور ڈیسک بجائے جاتے رہے۔ اب یہ ڈھول کئی دن بجے گا اور  دوسرے اہم مسلے  پس پشت چلے جائیں گے۔ کسی بھی مقرر نے ایسے واقعات کے رونما ہونے کی معاشرتی وجوہات پہ گفتگو نہیں کی اور نہ آج ہوگی۔  بلکہ اسمبلی میں یہ رائے عامہ بنائی جا رہی ہے کہ ایسا اسلامی قوانین نہ ہونے کے سبب ہے۔

ایک افسوسناک واقعہ ہوا ۔ ملزم پکڑے گئے اور آئندہ بھی ایسے واقعات ہوتے رہیں گے اور سخت سے سخت سزائیں بھی ایسے واقعات  کو روک نہیں پائیں گے۔ کیونکہ پاگل معاشرے کے محرکات کو سمجھنا ضروری ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر آج ایک ماہر نفسیات قومی اسمبلی میں presentation  دیتا اور اراکین اور قوم کو آگاہی دیتا۔

کیا سخت سے سخت سزائیں دینے سے ایسے جرائم پھر نہیں ہونگے؟ ایسا سمجھنا ایک مجذوں کی بڑ لگتا ہے۔ ضیاالحق کے دور میں 1978 کے شروع کے مہینوں میں  کم سن بچے سے زیادتی اور قتل کے اقدام پہ  تین مجرموں کو سر عام پھانسی پہ لٹکایا گیا تھا اور اسے ٹی وی پہ براہ راست دیکھایا بھی گیا۔ مگر اس کے بعد بھی  ایسے  ڈھیروں واقعات ہوتے رہے۔

ضیاالحق اپنی دھاک بٹھانے کیلئے اور مارشل لاء کے جواز کیلئے ایسا کر رہا تھا۔  اسے ایسے جرائم کی روک تھام سے ہرگز مطلب نہیں تھا۔ بلکہ 1979 کے حدود آرڈیننس کا اجراء کرکے اس نے  زنا بالجبر جیسے جرائم کو قانونی تحفظ فراہم کیا۔  زنا بالجبر کو زنا آرڈینینس کے ساتھ منسلک کردیا گیا۔  ریپ کے قانون شہادت کو بدلہ گیا۔ وہ سابقہ قانون جو زنابالجبر کی توضیح کرتا تھا " compulsory  زنا کرنا." لفظ compulsory کی وضاحت یہاں ضروری ہے کہ ایسا فعل جس میں فریقین کی باہمی رضا مندی نہ ہو۔ لیکن حدود آرڈینینس میں اس توضیح کو بدلا گیا۔ اب زنابالجبر بھی زنا کے زمرے میں آگیا جس میں دونوں فریقین کو مجرم قرار دیا گیا۔  جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے  ( اگر میں قانونی توضیح غلط کر رہا ہوں تو قانونی ماہرین تصیح فرمائیں۔ ) فیصل آباد میں ایک نابینا بچی کو کوڑے مارے گئے کہ اس کے ساتھ ریپ ہوا تھا اور اسے بھی زنا کے جرم میں برابر کا شریک سمجھا گیا ۔ شاید یہ واقعہ 1981 کے شروع کے مہینوں کا ہے ۔ اخبارات کے archives سے اس کی تصدیق ہوسکتی ہے۔

کل سے قومی اسمبلی میں شور برپا ہے کہ سخت سے سخت سزائیں دی جائیں۔ بلکہ دلچسپ یہ تھا کہ کچھ لوگ تو CCPO لاہور کے حق میں یا مخالفت میں بولتے پائے گئے۔ ایسا قومی اسمبلی میں کہنا مضحکہ خیز تھا کہ اب کوتوال شہر کے چرچے قومی اسمبلی میں ہوں۔ اسمبلی میں کمیٹیاں قائم ہیں وہاں اسے بلائیں اور اسکی سرزنش کریں یا نوکری سے نکال باہر کریں شاید آپ کے پاس ایسا قانونی جواز موجود ہے۔

قومی اسمبلی کا غیر سنجیدہ رویہ اس بات کی غماضی ہے کہ ان لوگوں کا ملک اور اس کے لوگوں سے اب کوئی سروکار نہیں رہا۔ مراد سعید چیخ چیخ کر جو کہہ رہے تھے کسے کے پلے کچھ نہیں پڑا۔  اور اپوزیشن کے لیڈر تو ایسے مسائل پہ گفتگو کرتے ہوئے ناخونداہ نظر آئے۔

ہمارا ملک اب بدقسمتی سے معاشرے کی تعریف میں نہیں آتا۔ غالب کے بقول ھم سب " حریص لذت آزار" ہوچکے ہیں۔ ہمیں سخت سے سخت سزاؤں سے مطلب ہے کہ ایک طبقہ اپنی انا کی تسکین کرسکے اپنی آزار دینے کی لذت سے لطف اندوز ہوسکے۔  لیکن کوئی بھی اپنی نااہلی ماننے کو تیار نہیں۔  ایک گھناؤنا جرم کہ جس پر کوئی بات نہیں کررہا کہ موٹر وے کو لاوارث چھوڑ دیا گیا تھا۔ بجائے اسکے ذمہ دار افسران کو سزائیں دینے کے جو کہ دینی چاہیے ڈیسک صرف اس پہ بجائے جاتے رہے کہ سر عام مجرموں کو چوک پہ لٹکایا جائے۔

سی سی پی او نے جو کہا وہ ہمارا عمومی معاشرتی رویہ ہے۔ پولیس کا ہمیشہ یہی موقف ہوتا ہے اور پولیس جاگیرداری اور مذہبی خیالات کا ملغوبہ ہے۔  ویسے نامرد بنانے کی رائے بھی دلچسپ ہے ایسی خواہش رکھنے والوں کی تحلیل نفسی بہت ضروری ہے۔ اور راقم کوششش کرے گا کہ آئندہ کے صفات میں اس ضروری تحلیل نفسی پہ بات کی جائے۔ وہاں آزار سے لطف لینے کا پہلو امکان ہے اجاگر ہوگا۔