بین الاقوامی سیاسی اشرافیہ کی انا پرستی اور عوام کی بربادی

بین الاقوامی سیاسی اشرافیہ کی انا پرستی اور عوام کی بربادی
دنیا بھر کی تمام جنگوں کے نتائج کو سامنے رکھیے تو نتیجہ اکثریت میں ایسا ہی ملتا ہے کہ کئی دن،مہینے یا سال جنگ رہنے کے بعد لیڈران (اشرافیہ) آپس میں ایک ہی ٹیبل پر بیٹھتے ہیں مسکراتے ہیں، ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہیں اور مشترکہ اعلامیہ جاری کرتے ہیں کہ ہمارے درمیان معاملات طے پا گئے ہیں، لہذا اب سے جنگ بندی کا اعلان کیا جاتا ہے۔ مگر تاریخ بہت مدہم آواز میں ہی صحیح مگر یہ بھی بتاتی ہے کہ اس کے برعکس ایک الگ ہی دور چل رہا ہوتا ہے جہاں ایک ماں جنگ میں شہید ہوئے اپنے بیٹے کی لاش کو یا تو ڈھونڈ رہی ہوتی ہے یا اس پر ماتم کر رہی ہوتی ہے، بیوی اپنے شوہر کی لاش پر اپنے آپ کے بیوہ ہونے کا سوگ منا رہی ہوتی ہے، بہن اپنے بھائی کی لاش دیکھ کر آنکھوں کو نم بھی نہیں کر پاتی کیونکہ سکتے سے اس کے جسم سے پانی سوکھ چکا ہوتا ہے۔

اس وقت دنیا روس اور یوکرائن کے تنازعہ میں خطے کے حالات اور خود پر پڑنے والے اثرات کا تو تذکرہ کر رہی اور ایک گروہ جو پیوٹن جبکہ دوسرا یوکرائنی صدر کی حمایت میں آسمان و زمین کے کلابے ملا رہے ہیں، یہ نہیں جانتے کے دونوں جانب سے ان لیڈران کی زندگی پر کوئی خاص فرق نہیں پڑتا بلکہ یہ لوگ دنیا کی اشرافیہ اور اس کی انا کی خاطر اپنی عوام اور افواج کو صدقے کا بکرا بنا کر پیش کر رہے ہیں۔

میں کسی کے جذبات کا مذاق نہیں اڑانا چاہتا ہوں مگر ایک فنکار (ایکٹر)سے آپ بہتر ایکٹنگ کی توقع تو کر سکتے ہیں مگر ملکی و معاشی حالات میں دل برداشتہ ہونا میری سمجھ میں تو نہیں آ پا رہا ہے۔آدھی سے زیادہ تماشائی دنیا اس وقت اپنے ماضی پر ہی لعنت کئے آگے بڑھ رہی ہے مثال کے طور پر یہ وہی روس ہے جسے کچھ دہائیاں قبل ہم نے سبق سیکھانے اور ٹکڑے ٹکرے کرنے کا تمغہ فخریہ طور پر اپنے سر سجایا تھا مگر آج ہم اس روس کے خلاف بیان دینے سے گھبرا رہے ہیں اور عین اس وقت جب روس نے یوکرائن پر حملہ کیا تو ہم فخریہ اس بات کا ڈھول پیٹ رہے ہیں کہ پاکستان کا کوئی وزیر اعظم 23 سال بعد روس کا دورہ کر رہا ہے۔

حال ہی میں افغان جنگ کا نتیجہ سب کے سامنے ہیں کہ امریکہ ،اور طالبان کا وفد دوحہ کے عالیشان ہوٹلوں میں مذاکرات کی ٹیبل پر منرل واٹر کے ساتھ قہقہ لگاتے جنگ بندی کا اعلان کر رہے تھے اور افغانستان کی عوام دوران جنگ بھی اذیت بھگت رہی تھی اور اب نام نہاد آزادی کے بعد بھی بھوک اور بے روزگاری سے مر رہی ہے۔

امریکہ نے جاپان پر ایٹم گرائے تو کیا امریکہ کے صدر ،سیاست دان یا جاپان کے حکمرانوں میں سے کسی کی آل اولاد اس میں شہید ہوئی؟ اس حملے کا نشانہ بنے عام عوام جن کی نسلیں گنگی بہری پیدا ہوتی رہیں، بر صغیر کا بٹوارہ ہو یا متحدہ پاکستان کا بٹوارہ ہواس کا نشانہ ہماری فورسز ہمارے جوان اور ان کے خاندان والے اور ہجرت کرنے اور اس کے دوران کٹ مرنے والے عام عوام بنے مگر بانیان ممالک تو ووی وی آئی پی طور پر ایک دوسرے سے گلے لگ کر دستخط کر کے اپنے اپنے ممالک میں آ کر قابض ہو گئے۔

آج بھی عرب امارات یا یورپ امریکہ میں بسنے والے بر صغیر کے باسیوں میں کوئی تفریق نہیں ہے ہندو ، مسلمان ، سکھ ، پارسی ایک سی زبان ، ثقافت، رنگ اور مٹی ہونے کی وجہ سے عربوں اور گوروں کے مقابلے اکٹھے خوشی سے رہتے ہیں جہاں دوسرے ممالک کے لوگ یہ پوچھنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ اتنا ہی پیار تھا تو علیحدگی کس بنیاد پر ہوئی تھی؟ کیا ہم ہندوستان میں چند عناصر جو آر ایس ایس اور مودی جیسے انتہاء پسند شخص کے حامی ہیں اور مسلمانوں سمیت اقلیتوں پر مظالم ڈھا رہے ہیں ان کی بنیاد پر تمام ہندو قوم کو تعصب پسند ہونے کا ٹیگ دے سکتے ہیں؟ کیا پاکستان میں چند متشدد لوگوں کی بنیاد پر آپ تمام پاکستانیوں کو متشدد کہہ سکتے ہیں؟ بلکل نہیں ، یہ ممکن ہی نہیں ہے۔

عوام یورپ کی ہو یا امریکہ کی ،عرب کی ہو یا روس کی برصغیر کی ہو یا افریقہ کی، ہمیشہ امن ہی چاہتی ہے، کبھی بھی عام انسان دوسرے انسان کو مختلف ثقافت یا زبان کی بنیاد پر قتل نہیں کرتا، یہ اشرافیہ ہے جو اپنی انا اور ضد کی خاطر اپنے اقتدار پر قابض رہنے کی خاطر عام عوام کو مرواتا ہے اور ان کی لاشوں پر اپنے مفاد کو مضبوط کرتا ہے۔

عظیم بٹ لگ بھگ 8 برسوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ بطور سماجی کارکن ملکی و غیر ملکی میڈیا فورمز اور ٹیلی وژن چینلز پر پاکستان کا مؤقف پیش کرتے ہیں۔ سردست وہ سماء ٹی وی کے ساتھ بطور ریسرچر اور پروڈیوسر وابستہ ہیں۔ ان کا ٹویٹر ہینڈل یہ ہے؛ Azeembutt_@