یوکرین پر حالیہ روسی چڑھائی کے بعد روسی فوج کو بھرپور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ روسی فوج نے حملے سے پہلے کہا تھا کہ ہم یوکرین کو ایک دن میں فتح کرلیںگے لیکن زمینی حقائق اس سے الگ تھے۔ انھیں شاید یوکرینی عوام کے عزم وہمت کا پتا نہیں تھا۔
روس حملے سے پہلے ہزاروں یوکرینی لڑکوں اور لڑکیوں نے وطن کی خاطر ملٹری ٹریننگ میں حصہ لیا۔ ملٹری ٹریننگ حاصل کی اور محاذ جنگ پر چلے گئے۔ ایک طرف روسی جارحیت اور جدید اسلحہ ہے اور دوسری طرف یوکرین نوجوانوں کا جذبہ جس نے پوری قوم میں ولولہ پیدا کر دیا ہے۔
یوکرین کی جنگ کو اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو اس جنگ میں روس ایک طرف اور دوسری طرف مغرب اور امریکہ ہے۔ امریکہ نے یوکرینی صدر زیلنسکی کو آگے کرکے روس کے خلاف استعمال کیا۔ یوکرین کے لوگوں کو یورپی یونین اور نیٹو کی ممبر شپ چاہیے اور امریکہ کا مطلب روس کو یوکرین میں مصروف رکھنا ہے تاکہ اسے شدید معاشی نقصان پہنچ سکے اور وہ اس دلدل میں پھنسا رہے۔
دوسری طرف روس بھی نہیں چاہتا کہ یوکرین یورپ نواز امریکا نواز ملک بن جائے۔ اس کی خاطر روس نے پہلے کریمیا پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کیا۔ بعد ازاں یوکرین پر حملے کے آغاز میں دوسری طرف لوہانسک اور ڈونباس کو آزاد ریاستیں ڈکلیئر کردیا۔
جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے روسی فوج کا مورال ڈاؤن ہو رہا ہے۔ ادھر اس جنگ کے خلاف روس کے اندر سے آوازیں اٹھنا شروع ہو چکی ہیں۔ روس میں صدر ولادیمیر کے سیاسی مخالفین اور عوام سڑکوں پر اس کیخلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ روس اندرونی مداخلتوں کا شکار ہے۔
اس کے ساتھ روس کے خلاف پولینڈ اور جارجیا سمیت دیگر ممالک کے رضاکار جوق در جوق یوکرین پہنچ رہے ہیں۔ قرین قیاس یہی ہے کہ روس کیلئے یوکرین کو زیر کرنا آسان نہیں ہوگا۔ جیسے ولادیمیر پیوٹن ترنوالہ سمجھا بیٹھا تھا، یوکرینی عوام اس کیلئے لوہے کے چنے ثابت ہو رہے ہیں۔