اختلاف کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک موقع پر شہباز شریف نے جب بیان دیا کہ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق پاکستان میں فرقہ واریت پھیلانے والے دہشتگرد افغانستان میں ٹریننگ حاصل کر رہے ہیں تو پاکستان کے دفتر خارجہ نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے بیان کی تردید کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ ایسی کوئی انٹیلی جنس رپورٹ موجود نہیں۔
اس واقعے کے چند ہی روز بعد جنرل پرویز مشرّف نے حکومت کا تخت الٹ دیا۔ اقتدار سنبھلنے کے بعد مشرّف کی اولین پریس کانفرنسز میں سے ایک میں انہوں نے حکومت گرانے کے جو اسباب بیان کیے، ان میں سے ایک نواز شریف حکومت کی جانب سے 'افغانستان کے ساتھ قریبی تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش' بھی شامل تھی۔
ذیل میں چند اخبارات کے تراشے ہیں جو ان تمام معاملات کی تصدیق کرتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ 2016 میں یہ نواز حکومت ہی تھی جس کے دوران ملک اسحاق، سپاہ صحابہ کا سربراہ، ایک پولیس مقابلے میں ہلاک ہوا۔
دوسری جانب بینظیر بھٹو اور مولانا فضل الرحمان کا کردار اس موقع پر بالکل وہی تھا جو پاکستان میں عموماً حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کا ہوا کرتا ہے۔
یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ آج بھی ہمارے ملک میں دہشتگردی ہو تو اس کا الزام دہشتگردوں پر نہیں، حکومت پر لگایا جاتا ہے، کہ جی یہ تو حکومت خود کروا رہی ہے۔ یہی کچھ اس وقت بینظیر بھٹو اور مولانا نے بھی کیا۔