1999 میں حکومت کا تخت الٹنے کے وقت نواز شریف کس قوت کے خلاف بر سر پیکار تھے؟

1999 میں حکومت کا تخت الٹنے کے وقت نواز شریف کس قوت کے خلاف بر سر پیکار تھے؟
اب سے کچھ عرصہ قبل جیو پر شاہزیب خانزادہ کے ایک پروگرام میں اس سلسلے میں بات ہوتے دیکھی، تو میں نے اپنے معمول کے مطابق لائبریری کی راہ لی اور پرانے اخبارات کے سیکشن میں جا گھسا، اور اکتوبر 1999 کے اخبارات چھاننے لگا۔ پروگرام میں گفتگو اس معاملے پر تھی کہ نواز شریف تخت الٹے جانے سے کچھ روز قبل سپاہ صحابہ کے دہشتگردوں سے نبرد آزما تھے جنہیں افغانستان میں موجود ملا عمر کی طالبان حکومت پناہ فراہم کر رہی تھی اور نواز شریف صاحب اس سلسلے میں طالبان حکومت سے خاصے نالاں تھے۔ ڈان کی وائر سروس کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ اس وقت بھی مسلم لیگ نواز اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلاف کی ایک بڑی وجہ دہشتگردی میں ملوث تنظیمیں تھیں۔

اختلاف کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک موقع پر شہباز شریف نے جب بیان دیا کہ انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق پاکستان میں فرقہ واریت پھیلانے والے دہشتگرد افغانستان میں ٹریننگ حاصل کر رہے ہیں تو پاکستان کے دفتر خارجہ نے پنجاب کے وزیر اعلیٰ کے بیان کی تردید کرتے ہوئے اعلان کر دیا کہ ایسی کوئی انٹیلی جنس رپورٹ موجود نہیں۔

اس واقعے کے چند ہی روز بعد جنرل پرویز مشرّف نے حکومت کا تخت الٹ دیا۔ اقتدار سنبھلنے کے بعد مشرّف کی اولین پریس کانفرنسز میں سے ایک میں انہوں نے حکومت گرانے کے جو اسباب بیان کیے، ان میں سے ایک نواز شریف حکومت کی جانب سے 'افغانستان کے ساتھ قریبی تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش' بھی شامل تھی۔

ذیل میں چند اخبارات کے تراشے ہیں جو ان تمام معاملات کی تصدیق کرتے ہیں۔



دلچسپ بات یہ ہے کہ 2016 میں یہ نواز حکومت ہی تھی جس کے دوران ملک اسحاق، سپاہ صحابہ کا سربراہ، ایک پولیس مقابلے میں ہلاک ہوا۔

دوسری جانب بینظیر بھٹو اور مولانا فضل الرحمان کا کردار اس موقع پر بالکل وہی تھا جو پاکستان میں عموماً حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں کا ہوا کرتا ہے۔



یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ آج بھی ہمارے ملک میں دہشتگردی ہو تو اس کا الزام دہشتگردوں پر نہیں، حکومت پر لگایا جاتا ہے، کہ جی یہ تو حکومت خود کروا رہی ہے۔ یہی کچھ اس وقت بینظیر بھٹو اور مولانا نے بھی کیا۔



 

مصنف اسلام آباد سے تعلق رکھتے ہیں۔