جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں نے یہ بھی درخواست کی تھی کہ میرے کیس کی سماعت براہ راست نشر کی جائے۔ میں چاہتا ہوں کہ میں اس پر دلائل دوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے کیس سے متعلق ایک بھی لفظ ایسا نہ ہو کہ جو عوام تک نہ پہنچے۔ بینچ نے کہا کہ ابھی تو اٹارنی جنرل بھی موجود نہیں کہ وہ ہوتے تو سن لیتے۔ جس پر قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ان میں اتنی کرٹسی نہ تھی وہ آ ہی جاتے۔ جس پر بینچ نے انکشاف کیا کہ ہم نے ان کو نوٹس ہی نہیں کیا تھا۔ اٹارنی جنرل کے اسسٹنٹ کو روسٹرم پر بلایا گیا اور پوچھا کہ کیا آپ ذاتی حیثیت میں موجود ہیں تو انہوں نے کہا کہ جی میں ذاتی حیثیت میں موجود ہوں۔ جس پر بینچ نے کہا کہ آپ نوٹس لے لیں اور اٹارنی جنرل کو بتائیں تاکہ وہ جب صحت یاب ہو کر آئیں تو انہیں مسئلہ نہ ہو۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھے شدید دکھ ہوا جو کچھ میری بیوی اور بچوں کے بارے میں اس کمرہ عدالت میں کہا گیا۔ انہوں نے اپنی اہلیہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں نوکری میرا فیصلہ تھی۔ میری اہلیہ یہ سب ڈیزرو نہیں کرتی تھیِں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے اس دوران ایک رول بک اٹھائی اور جسٹس منظور ملک سے مشاروت کی پھر جسٹس مقبول باقر سے مشاورت کی اور کہا کہ سپریم کورٹ کے رولز جو ہیں یہ اجازت نہیں دیتے کہ ریویو میں وکیل تبدیل ہوجائے۔ ہم رولز نرم نہیں کرسکتے۔ جس پر قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ رولز تبدیل ہوں مجھ پر بھی وہی رولز لگائیں جو سب کے لیئے لگیں۔ اس پر مجھے اعتراض نہیں ہی۔ بینچ نے کہا کہ ہاں آپ کے وکیل اتنے ہی بیمار ہیں تو ہمیں رپورٹس دیں پھر ہم دیکھیں گے۔ جس کے بعد سپریم کورٹ کی سماعت ملتوی کردی گئی۔
یاد رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دوسری بار سپریم کورٹ میں پیش ہوئے ہیں۔