اہم ترین کیس کی اہم ترن سماعت کے لیے گیارہ بج کر چالیس منٹ پر معزز جج صاحبان عدالت میں آئے۔ بینچ کی کمپوزیشن مختلف تھی۔ قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے حوالے سے دلائل خود روسٹرم پر آکر دیئے۔ انہوں نے دلائل دینا شروع کیئے تو جسٹس عمر عطا بندیال نے حیرانی سے پوچھا کہ کیا آپ اپنا کیس خود پلیڈ کریں گے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کے وکیل کہاں ہیں تو انہوں نے کہا کہ وہ بیمار ہیں انہوں نے مجھے ائیرپورٹ سے میسج بھی کیا۔ دلائل شروع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کیس کے حوالے سے سٹیک ہائی ہیں۔ یہ احتساب کی بات ہے ایک سپریم کورٹ کے جج کی بات ہے۔ یہ صرف یہ نہیں کہ بلکہ حکومت کے کنڈکٹ کی بات ہے۔ اس کیس پر سب کی نظر ہے۔ یہ بات نہیں ہے کہ عوام میرے سے محبت کرتی ہے۔ بلکہ یہ کہ عوام نظر رکھتی ہے تمام ججز پر۔ میری شہرت پر دھبہ آیا ہے۔ اور میں چاہتا ہوں کہ آپ جلد از جلد اس کیس کو نمٹا دیں کہ بینچ کے معزز رکن نے ریٹائر ہوجانا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں نے یہ بھی درخواست کی تھی کہ میرے کیس کی سماعت براہ راست نشر کی جائے۔ میں چاہتا ہوں کہ میں اس پر دلائل دوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میرے کیس سے متعلق ایک بھی لفظ ایسا نہ ہو کہ جو عوام تک نہ پہنچے۔ بینچ نے کہا کہ ابھی تو اٹارنی جنرل بھی موجود نہیں کہ وہ ہوتے تو سن لیتے۔ جس پر قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ان میں اتنی کرٹسی نہ تھی وہ آ ہی جاتے۔ جس پر بینچ نے انکشاف کیا کہ ہم نے ان کو نوٹس ہی نہیں کیا تھا۔ اٹارنی جنرل کے اسسٹنٹ کو روسٹرم پر بلایا گیا اور پوچھا کہ کیا آپ ذاتی حیثیت میں موجود ہیں تو انہوں نے کہا کہ جی میں ذاتی حیثیت میں موجود ہوں۔ جس پر بینچ نے کہا کہ آپ نوٹس لے لیں اور اٹارنی جنرل کو بتائیں تاکہ وہ جب صحت یاب ہو کر آئیں تو انہیں مسئلہ نہ ہو۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ مجھے شدید دکھ ہوا جو کچھ میری بیوی اور بچوں کے بارے میں اس کمرہ عدالت میں کہا گیا۔ انہوں نے اپنی اہلیہ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں نوکری میرا فیصلہ تھی۔ میری اہلیہ یہ سب ڈیزرو نہیں کرتی تھیِں۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے اس دوران ایک رول بک اٹھائی اور جسٹس منظور ملک سے مشاروت کی پھر جسٹس مقبول باقر سے مشاورت کی اور کہا کہ سپریم کورٹ کے رولز جو ہیں یہ اجازت نہیں دیتے کہ ریویو میں وکیل تبدیل ہوجائے۔ ہم رولز نرم نہیں کرسکتے۔ جس پر قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میں نہیں چاہتا کہ رولز تبدیل ہوں مجھ پر بھی وہی رولز لگائیں جو سب کے لیئے لگیں۔ اس پر مجھے اعتراض نہیں ہی۔ بینچ نے کہا کہ ہاں آپ کے وکیل اتنے ہی بیمار ہیں تو ہمیں رپورٹس دیں پھر ہم دیکھیں گے۔ جس کے بعد سپریم کورٹ کی سماعت ملتوی کردی گئی۔
یاد رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دوسری بار سپریم کورٹ میں پیش ہوئے ہیں۔