یاد رہے کہ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں سے ہونے والے ابراہم معاہدے کے تحت 4 عرب ممالک، متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان یہودی ریاست کے ساتھ معمول کے تعلقات پر رضامند ہوچکے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاشی اور سماجی کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی نقطہ نظر سے بھی انتہائی مددگار ہوگا۔
سعودی عرب بارہا فلسطین کے ساتھ تنازع کے حل کے لیے معاہدہ ہونے تک اسرائیل کے ساتھ رسمی تعلقات نہ رکھنے کی دہائیوں پالیسی کا اعادہ کرچکا ہے۔تاہم ایران کے حوالے سے مشترکہ خدشات اسرائیل اور خلیجی ممالک کو اکھٹا کرتے ہیں۔
گزشتہ برس نومبر میں یہ رپورٹس بھی سامنے آئی تھیں کہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمین نیتن یاہو نے سعودی عرب کاخفیہ دورہ کیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان اسرائیل کے تعلقات قائم کرنے کے حوالے سے بھیی قیاس آرائیاں منظر عام پر آتی رہیں جب وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹی وی انٹرویو میں ان قیاس آرائیوں کو رد کیا۔ تاہم پھر سے یہ بات تب اٹھی جب سعودی عرب نواز تب کے جےیو آئی ایف کے مولانا شیرانی نے کہا کہ پاکستان کو اسرائیل کو تسلیم کر لینا چاہیئے۔ ان رپورٹس سے ان قیاس آرائیوں کو تقویت ملی تھی کہ شاید تعلقات بحال کرنے اور معمول پر لانے کا کوئی معاہدہ ہورہا ہے تاہم ریاض کی جانب سے ایسی کسی بھی پیش رفت کی تردید کردی گئی تھی۔