میرے ہم وطن: ایک نظم

04:44 PM, 3 Feb, 2019

خورشید انور درانی
تمہیں ہم نے چنا تھا رہنما
ترے ہاتھ ہماری قسمت تھی
دی دھرتی ہم نے پاؤں تلے
تمہیں پلکوں پر بٹھائے پھرے

کچھ ہم اندر سے سوئے تھے
تھوڑا نشہ ذرا جنون تھا
تیرا قصور بہت بڑا
پر غافل تو ہم بھی ٹھہرے

تم خودی سے خود میں محو ہوئے
تمہیں پیاروں سے فرصت نہ ہوئی
جو غربت مارے مفلس تھے
تم اصل میں ان کے راہبر تھے

میری مٹی ماں کو نوچ کر
سب حق داروں سے چھین کر
ہر اک انجام سے بے خبر
تم لالچ کے غلام رھے

تمہیں بے گھر معصوموں نے دیا
اختیار تمام خزانوں کا
کھانا حرام جبلت میں
نہ آنکھیں نہ ہی پیٹ بھرے

مائیں پیاسی بلکتے طفل
جو تیری شان بڑھاتے گئے
تری خودغرضی انہیں کیا خبر
وہ مڑ مڑ دھوکا کھاتے رہے

کہیں شیر پنجاب کہیں بیٹا سندھ
کبھی ولی تھے خیبر پختونخوا کے
اغیار کے بن کر آلہ کار
تم فطرتِ دغا دکھاتے رہے

ترے جھوٹے وعدے سبز باغ
کہیں اونچے پل پھر ریل کار
اپنی جیبیں بھرنے کو تم
بسیار خزانے لٹاتے رہے

تم بادشاہ تھے بنے پھرتے
تب جنت دوزخ بُھولے تھے
جب پکڑ میں آئے قاضی کی
صحت نا ساز کے حیلے ہوئے

خود کو بھی بے توقیر کیا
اور روندی عزت دیس کی بھی
پھر بوجھ تیرے گناہ کا
کچھ بے شرم ہیں اٹھائے پھرے
مزیدخبریں