تمہیں ہم نے چنا تھا رہنما
ترے ہاتھ ہماری قسمت تھی
دی دھرتی ہم نے پاؤں تلے
تمہیں پلکوں پر بٹھائے پھرے
کچھ ہم اندر سے سوئے تھے
تھوڑا نشہ ذرا جنون تھا
تیرا قصور بہت بڑا
پر غافل تو ہم بھی ٹھہرے
تم خودی سے خود میں محو ہوئے
تمہیں پیاروں سے فرصت نہ ہوئی
جو غربت مارے مفلس تھے
تم اصل میں ان کے راہبر تھے
میری مٹی ماں کو نوچ کر
سب حق داروں سے چھین کر
ہر اک انجام سے بے خبر
تم لالچ کے غلام رھے
تمہیں بے گھر معصوموں نے دیا
اختیار تمام خزانوں کا
کھانا حرام جبلت میں
نہ آنکھیں نہ ہی پیٹ بھرے
مائیں پیاسی بلکتے طفل
جو تیری شان بڑھاتے گئے
تری خودغرضی انہیں کیا خبر
وہ مڑ مڑ دھوکا کھاتے رہے
کہیں شیر پنجاب کہیں بیٹا سندھ
کبھی ولی تھے خیبر پختونخوا کے
اغیار کے بن کر آلہ کار
تم فطرتِ دغا دکھاتے رہے
ترے جھوٹے وعدے سبز باغ
کہیں اونچے پل پھر ریل کار
اپنی جیبیں بھرنے کو تم
بسیار خزانے لٹاتے رہے
تم بادشاہ تھے بنے پھرتے
تب جنت دوزخ بُھولے تھے
جب پکڑ میں آئے قاضی کی
صحت نا ساز کے حیلے ہوئے
خود کو بھی بے توقیر کیا
اور روندی عزت دیس کی بھی
پھر بوجھ تیرے گناہ کا
کچھ بے شرم ہیں اٹھائے پھرے