آج کے دن انہوں نے میری ماں کو قتل کیا تھا، ایک نظم اس قسم کے نام کہ کبھی سر نہ جھکاؤں گا

آج کے دن انہوں نے میری ماں کو قتل کیا تھا، ایک نظم اس قسم کے نام کہ کبھی سر نہ جھکاؤں گا
از منظر بشیر

یہ نظم اپنی پیاری والدہ ڈاکٹر الطاف بشیر کے بائیسویں یوم شہادت پر لکھی تھی۔ وہ ایک عظیم ماں ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت قابل ڈاکٹر بھی تھیں۔ 70 کے اوائل میں رائل کالج آف گائنی انگلینڈ کی فیلو شپ حاصل کی۔ پنجاب میڈیکل کالج فیصل آباد کی پرنسپل بھی رہیں۔ ہاروڑد یونیورسٹی کی کیس سٹڈیز میں بھی ان کی ریسیرچ کا ذکر ہوا۔

انہوں نے کسی موقع پر سچ کا دامن نہیں چھوڑا۔ مردوں کے اس متعصب معاشرے میں ہم نے ان سے بہادر انسان نہیں دیکھا۔ جو معاشرہ جھوٹ پر قائم ہو وہاں سچ بولنا کفر ہوتا ہے۔ افسوس سچ بولنے کی عادت نے بہت سے دشمن بھی بنا دیئے۔ کئی سال ہمیں دھمکیاں ملتی رہیں اور بالآخر اسی راست گوئی کی پاداش میں 17 مئی 1996 کو ہمارے گھر میں گھس کر ان کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔

ایک دہائی سے زیادہ سپریم کورٹ میں ہم نے انصاف کا مذاق اڑتے دیکھا۔ اپنی کمر ٹوٹتے دیکھی۔

آج کل کچھ منچلے سچ کی راہ پر چل نکلے ہیں۔ تاریخ ان کو ایک دن سلام کرے گی، ریاست کچھ بھی کہے۔ جو ریاست 8،9 سال کے سوات کے مظلوم حق مانگنے والے بچوں کو دشمن کا ایجنٹ بنا دے وہ آپ کو حق کیا دے گی؟ حق لینا پڑے گا۔ آواز اٹھانی پڑے گی۔ کیسے ممکن ہے کہ سچ نہ بولا جائے؟

کہتے ہیں انسان کو بنایا مٹی سے
میں تو ہزار طوفانوں سے بنا ہوں
اب کیا سوچوں انجام کی فکر میں
کب آساں راستے پر چلا ہوں
فضاؤں کو کون قید کر سکا ہے
میں مقتل کے راستے پر خود چلا ہوں
جان سے زیادہ کیا لے سکو گے
میں جسم پہ کفن لپیٹ کے نکلا ہوں
تمہاری گولیوں سے لڑے گا اک قلم میرا
شکست خوردہ ہوں امید پہ تو کھڑا ہوں
تاریخ کی کتابوں سے مٹا بھی دو مجھے
قصوں سے لوگوں کے دل میں بسا ہوں
علی دینگے میرے حق کی گواہی
باطل سے لڑا ہوں حق پہ کھڑا ہوں
موت کی تمنا مجھ جیسے ہی کریں گے
درندوں سے لڑا ہوں شیروں میں پلا ہوں
یزید کے آگے سر نہیں جھکا سکتا
حر ہوں حسین کے ساتھ کھڑا ہوں