Get Alerts

متحدہ عرب امارات کا سرمایہ کاری پیکج 2019؛ آئیے صاف گوئی سے کام لیں

متحدہ عرب امارات کا سرمایہ کاری پیکج 2019؛ آئیے صاف گوئی سے کام لیں
جنوری کی 6 تاریخ کو متحدہ عرب امارات کے ولی عہد محمد بن زاہد سلطان النیہان نے اپنی افواج کے سربراہ کے ہمراہ پاکستان کا دورہ کیا۔ یہ خلیجی ریاست کے سربراہ کا گذشتہ بارہ سالوں کے دوران پاکستان کا پہلا دورہ تھا۔ اسے ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا سکتا ہے کیونکہ چند سال قبل پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات میں شدید تناؤ پیدا ہوا تھا جب پاکستان نے یمن میں حوثی باغیوں کے خلاف لڑنے کیلئے اپنی فوجیں بھیجنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس وقت متحدہ عرب امارات کی جانب سے اس بات کو لیکر پاکستان پر سخت تنقید کہ گئی تھی اور پاکستان کو دھمکایا گیا تھا کہ پاکستان کو سعودی عرب کی درخواست پر یمن فوجیں بھیجنے کے بجائے ایک متضاد رویہ برتنے کی "بھاری قیمت" ادا کرنا پڑے گی۔

https://www.youtube.com/watch?v=zi1KtDpAuuk&t=8s

مختلف رپورٹوں کے مطابق متحدہ عرب امارات نے 6.2 ارب ڈالر کے امداد کے پیکج کو حتمی شکل دے دی ہے تاکہ اسلام آباد اپنے ادائیگیوں کے عدم توازن کو درست کر سکے۔ اس پیکج میں 3.2 ارب ڈالر کا تیل طویل المدت ادائیگیوں پر اور تین ارب ڈالر نقد شامل ہیں۔ اس اعلان کے بعد وزیر اعظم عمران خان نے ٹویٹر پر متحدہ عرب امارات کی حکومت کے پاکستان کے مشکل وقت میں مدد کرنے کے اقدام کو سراہا۔

پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے تعلقات 1971 سے متحدہ عرب امارات کے قیام کے بعد سے قائم ہیں اور مختلف شعبوں میں انہیں فروغ حاصل ہوا ہے۔ سیاسی میدان میں متحدہ عرب امارات نے ہمیشہ پاکستان کی مدد کی۔ 2005 کا زلزلہ اور اس میں خلیجی ریاست کا تعاون اس ضمن میں ایک روشن مثال ہے۔ 2011 میں متحدہ عرب امارات نے پاکستان اسسٹنس پروگرام کا آغاز کیا جس کا مقصد پاکستان میں سکولوں کی تعمیر، سڑکوں اور پلوں کی تعمیر اور صحت کے شعبے میں بہتری لانا تھا۔ اقتصادی میدان میں متحدہ عرب امارات نے تقریباً 15 لاکھ پاکستانیوں کو اپنے یہاں روزگار سے منسلک کر رکھا ہے۔ سٹیٹ بنک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان نے جولائی 2018 میں 443.2 ملین بیرونی ترسیلاتی زر حاصل کیا۔



تجارتی میدان میں متحدہ عرب امارات سے 6 ارب ڈالر کا کاروبار کیا گیا۔ پاکستان متحدہ عرب امارات کو 869 ملین امریکی ڈالر کی برآمدات بھیجتا ہے اور وہاں سے 7۔5 ارب روپے کی درآمدات منگواتا ہے۔ براہ راست خارجی سرمایہ کاری کے اعتبار سے متحدہ عرب امارات پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے چند نمایاں ممالک میں شمار ہوتا ہے اور اس نے بنکنگ، ٹیلی کام اور توانائی کے شعبوں میں پاکستان میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان دفاعی تعاون بھی بیحد اہمیت کا حامل ہے۔ 1994 میں پاکستان اور متحدہ عرب امارات نے اپنے دفاعی تعاون کو منظم کرتےہوئے "ڈیفنس کنسلٹیٹو گروپ" کا قیام عمل میں لایا جس کا مقصد انٹیلیجنس شیئرنگ، مشترکہ فوجی مشقوں، تربیت اور پیداوار کے ذریعے دفاعی تعاون کو مزید بڑھانا تھا۔ اعلیٰ سطح کی فوجی ملاقاتیں بھی دونوں ممالک کے مابین وقتاً فوقتاً ہوتی رہتی ہیں۔ پاکستان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے متحدہ عرب کے قیام کے بعد اس کی فضائیہ کی بنیاد رکھی۔



خارجہ پالیسی کے محرکات اسی طرح ہیں جو گذشتہ حکومتوں کے ادوار میں تھے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اپنے گذشتہ ہم منصبوں کی مانند عمران خان مشرق وسطیٰ امداد لینے کے بجائے کاروباری اور سرمایہ کاری کی سوچ لیکر جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات کا امدادی پیکج بھی سعودی عرب کی امداد کی مانند ہے۔ پاکستان سعودی عرب سے پہلے ہی 3.18 فیصد شرح سود پر 2 ارب ڈالر کا قرضہ وصول کر چکا ہے جبکہ اس قرضے کا مزید ایک ارب ڈالر فروری میں ملنے کی توقع ہے۔ اس کے علاوہ سعودی عرب پاکستان کے شہر گوادر کی بندرگاہ پر 10 ارب ڈالر کی مدد سے ایک تیل کی ریفائنری بھی قائم کرے گا۔ اس معاہدے پر دستخط سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان کی پاکستان آمد کے موقع پر کیے جائیں گے۔

https://www.youtube.com/watch?v=w_TP0NzDzqw

یہاں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ سرمایہ کاری کے علاوہ بہت سے مسائل ایسے ہیں جنہیں حل کرنا بیحد ضروری ہے۔ پہلا اور سب سے ضروری مسئلہ متحدہ عرب امارات میں پاکستانی تارکین وطن اور وہاں کام کرنے والے افراد کے حقوق کا ہے۔ کام کرنے کے اجازت نامے دینے کے غیرقانونی ذرائع بند ہونے چاہئیں اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ کفیل کا نظام متحدہ عرب امارات میں پاکستانی مزدوروں کیلئے جبری مشقت کا باعث نہ بنے۔ اس ضمن میں مزدوروں اور دیگر افراد کو تربیت فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ آگاہی بھی دینی چاہیے۔ دونوں ممالک کے مابین بڑھتے ہوئے تجاری خسارے کو کم کرنے کیلئے پاکستان کو چاول اور چینی متحدہ عرب امارات برآمد کرنے کی اجازت دینی چاہیے۔ متحدہ عرب امارات نے پاکستان پر 2015 میں سخت تنقید کی تھی جب پاکستان نے اپنی افواج یمن بھیجنے سے معذرت کر لی تھی۔ متحدہ عرب امارات کو پاکستان کی خود مختار حیثیت کا احترام کرنا چاہیے اور اس حوالے سے اسے پاکستان پر دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے۔ اصل سوال یہ ہے کہ چونکہ دنیا میں کوئی بھی چیز مفت نہیں دی جاتی، تو عربوں کو اس سے کیا حاصل ہو گا؟



مہنگے تحائف کے تبادلے جن میں سے ایک سعودی بادشاوں کی جانب سے عمران خان کو سونے کی بنی ہوئی کلاشنکوف اور گولیاں بھی ہیں سے ظاہر ہوتا ہے کہ عرب نئی حکومت سے چند فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ تیل کی ریفائنری کے قیام کا مطلب ہے کہ عربی چین پاکستان اقتصادی راہداری کا ایک اہم حصہ بن جائیں گے۔ گو ابھی اس ضمن میں دستیاب معلومات بیحد کم ہیں، یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ سعودیوں اور متحدہ عرب امارات کی گوادر میں موجودگی سے ایران ناخوش ہو گا۔ خطے میں کسی نہ کسی صورت اپنی موجودگی برقرار رکھ کر عربی اپنے پرانے حریف ایران پر باآسانی نظر رکھ سکیں گے۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی سرمایہ کاری بلاشبہ پاکستان کی موجودہ بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال کو سنوارنے میں مدد فراہم کرے گی۔ لیکن عمران خان کیلئے یہ مفید ہو گا کہ وہ محتاط رہتے ہوئے پہلے سے ہی تمام شرائط اور ضوابط طے کر لیں۔ گو پاکستان نے ہمیشہ سے ہی سعودی ایران تننازعے میں نیوٹرل رہنے کا دو ٹوک اعلان کیا ہے لیکن عرب ریاستوں کی یہ نئی سرمایہ کاری پاکستان کیلئے ایک پھندہ بھی بن سکتی ہے۔ اگر ایک بار پھر 2015 کی مانند پاکستانی افواج یمن بھیجنے کی درخواست ان عربی ریاستوں کی جانب سے پیش کی گئی۔

مصنفہ لمز اور یونیورسٹی آد واروک سے فارغ التحصیل ہیں۔