سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کاستمبر کے دوسرے ہفتے میں پاکستان کے مختصر دورے کا امکان ہے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق سعودی ولی عہد پہلے مرحلے میں پاکستان اور دورے کے دوسرے مرحلے میں بھارت روانہ ہوں گے۔
ذرائع کا کہنا ہےکہ محمد بن سلمان کا 10 ستمبر کو پاکستان پہنچنے کا امکان ہے جب کہ سعودی ولی عہد کا ممکنہ دورہ پاکستان 4 سے 6 گھنٹوں کا ہوگا۔سعودی ولی عہد جی 20 ( G-20)سربراہ اجلاس کے بعد بھارت پہنچیں گے۔ اٹھارواں جی 20 سربراہ اجلاس 9، 10 ستمبر کو دہلی میں منعقد ہوگا۔ محمد بن سلمان 11 ستمبر کو بھارت پہنچیں گے۔
ذرائع کے مطابق محمد بن سلمان دورہ پاکستان میں نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ سے ملاقات کریں گے جب کہ ان کی آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے بھی ملاقات متوقع ہے۔ ان ملاقاتوں میں پاک سعودی عرب تعلقات کے فروغ پر تبادلہ خیال کیا جائے گا۔ دفاعی تعلقات مشترکہ مسلح دفاعی مشقوں پر بھی بات ہو گی۔
ذرائع کا کہنا ہےکہ محمد بن سلمان کے دورے میں سعودی عرب کی جانب سے پاکستان میں آئل ریفائنری کے قیام پربھی تبادلہ خیال کیاجائے گا۔
ستمبر میں بھارت میں ہونے والے جی 20 سربراہی اجلاس سے قبل، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور پانچ دیگر انسانی حقوق کے گروپوں نے ایک کھلے خط پر دستخط کیے جس میں کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خاتمے اور انسانی حقوق کے کارکنوں اور سیاسی بنادوں پر نظر بند کیے گئے لوگوں کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔
یہ خط 23 اگست کو شائع ہوا تھا جس میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور اسے G20 کے رکن ممالک، مہمان ممالک اور مدعو بین الاقوامی تنظیموں کے نمائندوں کو بھیجا گیا تھا۔
خط میں کہا گیا کہ جب آپ کے رہنما ستمبر 2023 میں ہونے والے جی 20 سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے تیاری کر رہے ہیں، ہم آپ کی حکومت سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ بین الاقوامی قانون کے تحت آپ کی ذمہ داریوں کے مطابق ان مسائل کو براہ راست اور واضح طور پر بھارتی حکومت کے سامنےاٹھائے اور ہندوستان سے اپنی بین الاقوامی قانونی ذمہ داریوں پر عمل کرنے کا مطالبہ کریں۔
خط میں کہا گیا ہے کہ 2019 کے بعد سے، جب بھارت نے آرٹیکل 370A اور آرٹیکل 35A کو منسوخ کرتے ہوئے جموں و کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت کو ختم کیا، حکومت نے اپنی جابرانہ پالیسیاں جاری رکھی ہیں، جن میں اظہار رائے کی آزادی، پرامن اجتماع اور انجمن پر پابندیاں شامل ہیں۔ اور اس کی فوج، نیم فوجی، پولیس، اور دیگر فورسز کی طرف سے کی جانے والی مبینہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات اور مقدمہ چلانے میں ناکام رہا۔