نظم: اعتبار کیوں کیا؟

نظم: اعتبار کیوں کیا؟
نقلی تھا بھیس تیرے وعدے پھوک
کیا تم نے ہے برسوں استحصال
چلے پیچھے تیرے تھے بھیڑ کی چال
میرے ہم وطنوں کا تھا بھول پن

یہ تھے کٹتے مرتے نام پہ تیرے
تجھے سمجھ کے بیٹھے مسیحا تھے یہ
کبھی ریت کی بنی دیوار مگر
ہوئی سائبان کریں لاکھ جتن

تجھے آزما کے پھر آزما
جو لگا کے رکھیں تھیں باریاں
نہج اُس پر آن یہ پہنچا دیس
ہوئی پوری کی پوری معاش دفن

اِس در سے مانگ کبھی اُس در سے
مٹی میں شان گئی ملِ ساری
دبی قوم ہے جس قرضے کے تلے
تھیں عیاشیاں تیری راہزن

دل میں اگر رکھتے قوم کا درد
کوئی سادگی یا شعار بھی تو
ڈھانپے ہوتے سب دھرتی کے
پیاسے بھوکے اور ننگے بدن

وہ اپنی سکا نہ ہی بھوک مٹا
ڈاکو خود ہی تھا حاکمِ وقت
چھل کیا سمیٹ دھن زر سارا
سب لے کے اُڑا کسی اور وطن

گئی بیت صدی ہمیں سوئے ہوئے
اب سعی ہے لازم کرنا ہوگی
یوں کہ مستقبل نئی نسلوں کا
بنے تابناک نہ کہ بے ثمن