خورشید شاہ اور جج میں مکالمہ

خورشید شاہ اور جج میں مکالمہ

سکھر: احتساب عدالت نے پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 6 روز کی توسیع کردی۔


سکھر کی احتساب عدالت میں خورشید شاہ کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات کیس کی سماعت ہوئی جس سلسلے میں نیب حکام نے پی پی رہنما کو عدالت کے روبرو پیش کیا۔

دورانِ سماعت خورشید شاہ اور جج کے درمیان مکالمہ ہوا جس میں پی پی رہنما نے کہا کہ اگر میں باہر ہوتا تو نیب کو ہر ثبوت فراہم کرسکتا تھا، لوگ ہم کو ڈر کر ووٹ نہیں دیتے بلکہ پیار کرتے ہیں۔

جج نے خورشید شاہ سے مکالمہ کیا کہ شاہ صاحب آپ کو ضمانت دینے کا اختیار میرے پاس نہیں ہے، ضمانت اور رہائی کے لیے آپ کو پراپر فورم پر جانا ہوگا، اس پر خورشید شاہ نے کہا کہ جج صاحب آپ مجھے تین ماہ کے ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیں، میں عزت دار سیاستدان ہوں اور مجھے اس سب سے تکلیف ہورہی ہے، میں نے اس سال 27 لاکھ ٹیکس دیا اور بچوں نےالگ ٹیکس دیا۔

پی پی رہنما نے عدالت کو بتایا کہ مجھے دل کا عارضہ لاحق ہے اور آکسیجن کا بھی مسئلہ ہے لہٰذا رات بھی میری طبعیت خراب ہوگئی تھی، اس وقت یہ نیب والے میرے ساتھ تھے لیکن میں نے کسی کو نہیں کہا کہ میری طبعیت خراب ہوئی بلکہ سپاہی نے خود دیکھا۔

پی پی رہنما کا عدالت میں کہنا تھا کہ آج میری آنکھوں میں آنسو کیوں ہیں،کیوں کہ مجھ پر بے بنیاد الزامات لگائے گئے، اس پر جج نے مسکرا کر خورشید شاہ سے مکالمہ کیا کہ شاہ صاحب آپ سے ایک غلطی ہوگئی کہ آپ نے نیب قانون ختم نہیں کیا۔

اس سے قبل نیب پراسیکیوٹر نے موقف اختیار کیا کہ خورشید شاہ کے 3 بینک اکاؤنٹ مل گئے ہیں جس میں 28 کروڑ روپے ہیں، خورشید شاہ سے پوچھا کہ آمدن کے ذرائع بتائیں تو کہتے ہیں خاندان سے پوچھ لو، خورشید شاہ عوامی شخصیت ہیں ان کو جواب دینا ہو گا۔ مزید تفتیش کے لیے ملزم کے جسمانی ریمانڈ میں 15 روز کی توسیع کی جائے۔

جس پر فاضل جج نے ریمارکس دیئے کہ اگر میں آپ کو پورے 90 دن کا بھی ریمانڈ دے دوں تو آپ آخر میں پھر بھی صرف الزامات کی فہرست لائیں گے۔ احتساب عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد خورشید شاہ کے جسمانی ریمانڈ میں 6 روز کی توسیع کردی اور نیب کو حکم دیا کہ ملزم کو 21 اکتوبر کو دوبارہ پیش کیا جائے۔

عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی رہنما مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ ہم احتساب سے نہیں گھبراتے اور نہ ڈرتے ہیں، ہم ہمیشہ انصاف کے لیے پیش پیش رہتے ہیں، خورشید شاہ ایک نیک انسان ہیں، اگر خورشید شاہ ڈرتے یا مجرم ہوتے تو پہلے ہی ضمانت کراتے مگر نہیں انہوں نے خود کو انصاف کے لیے پیش کیا۔ آصف علی زرداری، فریال تالپور اور خورشید شاہ کے ساتھ انتقامی رویہ اپنایا جارہاہے جوکہ ناقابل قبول ہے۔ اس طرح کا انتقامی رویہ ہمیں ٹھنڈا نہیں کررہا بلکہ بھڑکا رہا ہے۔

مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ ہم پاکستان کو چلانا چاہتے ہیں، ہم اس ملک کی سالمیت چاہتے ہیں۔ آپ لوگ تو معصوم خواتین تک کو نہیں بخشتے یہاں تک کہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کا خون بہایا گیا۔ عوام خود ہی فیصلہ کرے کہ وہ بہادر اور نڈر نوجوان لیڈر بلاول بھٹو کا ساتھ دے گی یا ایک سلیکٹڈ کا۔