Get Alerts

نئے آرمی چیف کا فیصلہ جو بھی ہوگا، یہی حکومت کرے گی: سید خورشید شاہ

نئے آرمی چیف کا فیصلہ جو بھی ہوگا، یہی حکومت کرے گی: سید خورشید شاہ
وفاقی وزیر برائے آبی وسائل سید خورشید شاہ نے اہم بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگلے آرمی چیف کا فیصلہ موجودہ حکومت ہی کرے گی۔

اردو نیوز کو دیئے گئے انٹرویو میں خورشید شاہ نے کہا کہ تحریک انصاف کی جانب سے الیکشن کمیشن پر جانبداری کے الزام سے متعلق خورشید شاہ نے کہا کہ الیکشن کمیشن مکمل طور پر آزاد ہے اور اس کا کریڈٹ عمران خان کو جاتا ہے، کیونکہ چیف الیکشن کمشنر کا نام انہوں نے تجویز کیا تھا لیکن یہ اس کی بدقسمتی ہے کہ وہی ان پر الزامات لگا رہے ہیں۔

نئے انتخابات سے متعلق خورشید شاہ کا کہنا تھا کہ الیکشن کے انعقاد کا وقت کا فیصلہ کرنا سیاستدانوں کی صوابدید اور الیکشن کمیشن کا کام ہے۔

خورشید شاہ نے کہا کہ نئے آرمی چیف کے حوالے سے ابھی مشاورت نہیں ہوئی۔ اس حوالے سے جون 2022 کے بعد ہی بات ہوگی۔ آئین کے تحت آرمی چیف کی تقرری وزیراعظم کا دائرہ اختیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف اس حوالے سے اپنے اتحادیوں سے مشاورت کریں گے لیکن حتمی فیصلہ وزیراعظم کو کرنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت رواں برس نومبر میں پوری ہو رہی ہے۔ دو ماہ پہلے نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اس لئے وہ تو اس حکومت میں ہی ہوگا۔ نئے آرمی چیف کا فیصلہ جو بھی ہوگا وہ یہی حکومت کرے گی۔

یہ بھی پڑھیں: اگر کوئی سمجھتا ہے کہ فوج کے اندر تقسیم ہوسکتی ہے تو اسے ہمارے بارے میں پتا ہی نہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر

خیال رہے کہ گذشتہ روز پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا تھا کہ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ پاکستانی فوج کے اندر تقسیم ہو سکتی ہے تو اس کو فوج کے بارے پتا ہی نہیں، پوری فوج ایک لڑی میں پروئی ہوئی ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنے بیان میں کہا کہ پاکستان کی عوام اپنی مسلح افواج سے محبت کرتے ہیں۔ مسلح افواج کا کردارعوام کے لیے ہمیشہ اچھا رہے گا۔ مسلح افواج اور عوام کے کردار میں کسی قسم کی دراڑ نہیں آسکتی۔

میجر جنرل بابر افتخار کا کہنا تھا کہ پچھلے چند دنوں میں تمام سیاسی جماعتوں کی لیڈرشپ نے مسلح افواج کی قیادت کے خلاف بیانات دیئے۔ بار بار درخواست کی ہے مسلح افواج کو سیاسی گفتگو سے باہر رکھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے سیکیورٹی چیلنجز اتنے بڑے ہیں کہ ہم ملک کی سیاست میں شامل نہیں ہو سکتے۔ اگر ملک کی حفاظت کے اندر کوئی بھول چوک ہوئی تو معافی کی گنجائش نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ فوج اپنے آرمی چیف کی طرف دیکھتی ہے۔ کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی فوج کے اندر تقسیم پیدا کر سکتا ہے۔ واضح کر دوں کہ جائز تنقید سے ہمیں پرابلم نہیں ہے۔ لیکن خاص طور پر سوشل میڈیا پر تنقید نہیں، پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔

ترجمان کا کہنا تھا کہ واضح کردوں کہ فوج کے اندر کسی بھی رینک میں کمانڈ کا عہدہ اہم ہوتا ہے۔ کسی بھی کور کی کمانڈ آرمی چیف کے بعد اہم عہدہ ہوتا ہے۔ ہماری ستر فیصد فوج ڈپلائمنمنٹ ہے۔ مختلف جہگوں پر کاؤنٹر ٹیررازم آپریشن کر رہے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم نے بہت کامیابیاں حاصل کی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جلد الیکشن کا فیصلہ سیاست دانوں نے کرنا ہے، فوج کا کوئی کردار نہیں۔ سیاست دان اس قابل ہیں کہ وہ بیٹھ کر بہتر طریقے سے فیصلہ کر سکتے ہیں۔ جب بھی فوج کو کسی سیاسی معاملے میں بلایا گیا تو معاملہ متنازع ہو جاتا ہے۔ سیاست دان الیکشن کا فیصلہ بیٹھ کر ہی کر سکتے ہیں۔ الیکشن کے دوران سیاستدان فوج کو بطور سیکیورٹی بلائیں گے تو اپنی خدمات پیش کریں گے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ فوج کبھی بھی سیاست دانوں کو ملاقات کے لیے نہیں بلاتی۔ جب فوج کو درخواست کی جاتی ہے تو پھر آرمی چیف کو ملنا پڑتا ہے۔ اس حوالے سے ساری کی ساری ذمہ داری سیاست دانوں پر ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی کے دوروں کو اوپن نہیں کیا جاتا۔ ان کے دورے بیک گراؤنڈ چلتے رہتے ہیں۔ تمام ممالک کے انٹیلی جنس چیف کے ساتھ ملاقات اور انٹیلی انجس شیئرنگ ہوتی ہے۔ ایسے معاملات میں کوئی ابہام پیدا نہیں کرنا چاہیے۔

ترجمان پاک فوج کا کہنا تھا کہ ہمارے آفیسر اور جوان سوسائٹی سے کٹ ہو کر ملک کا دفاع کرتے ہیں۔ جب افواہیں اور ادارے کے بارے غلط بات چیت ہو تو ان تک بھی پہنچتی ہے۔ اس طرح کے بیانات سے ادارے کا مورال متاثر ہوتا ہے۔ آفیسر اور جوان ایک ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہماری لیڈرشپ کا معیار بہت اعلیٰ ہے۔ ہمارے جوانوں کو اپنے آرمی چیف پر یقین ہوتا ہے۔ فوج کے ہر رینک نے شہادتیں دی ہیں۔ لیڈرشپ پر تنقید کرنے سے ہر فوجی متاثر ہوتا ہے۔ فوج کا سینٹر آف گریویٹی آرمی چیف ہوتا ہے۔ بلاوجہ آرمی چیف کے عہدے پر تنقید کے نیگیٹو اثرات ہوتے ہیں۔ بار بار کہتے ہیں کہ فوج کو سیاست سے دور رکھیں۔