چور کی داڑھی میں تنکا: الزام لگنے سے پہلے ہی تحریکِ لبیک نے کی بورڈ سنبھال لئے

12:44 PM, 7 May, 2018

علی وارثی

وفاقی وزیرِ داخلہ احسن اقبال پر اتوار کو ہونے والے حملے کے حوالے سے ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا کہ حملہ آور کا تعلق تحریک لبیک پاکستان سے تھا اور یہ کہ اس نے ابتدائی تفتیش میں بتایا کہ اس کا یہ اقدام ختمِ نبوت کے قانون میں ہونے والی مبیّنہ تبدیلی کے خلاف تھا۔


تاہم صحافی عابد حسین کے مطابق تحریک لبّیک پر الزام لگنے سے بھی کافی پہلے ہی اس کے حامیوں نے ٹوئٹر پر اپنی جماعت کے پُر امن ہونے کا ٹرینڈ چلانا شروع کر دیا تھا۔۔





عابد حسین نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر لکھا کہ اس سب میں سب سے زیادہ دلچسپ امر یہ ٹرینڈ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جتنی تیزی سے یہ ٹرینڈ ٹوئٹر پر کامیاب ہوا، جس وقت اس کا آغاز ہوا، جس قسم کا اس پر مواد ملا اور جس قسم کی مواد لکھنے والے ملے، یہ سب بہت انوکھا تھا۔


"جب میں نے تھوڑا سا کریدنے کی کوشش کی تو نظر آیا کہ اس ٹرینڈ پر سب سے پہلی ٹوئیٹس سات بجے کی قریب کی گئی ہیں۔ جکہ احسن اقبال پر حملے کی خبر ٹی وی پر ساڑھے چھے بجے چلی تھی۔"





معروف صحافی حسن زیدی کے پوچھنے پر انہو نے بتایا کہ حملہ آور کے تحریک لبّیک کے ساتھ تعلّق بارے افواہیں تقریباً ایک گھنٹے بعد آنا شروع ہوئیں جبکہ صحافی طارق متین نے بھی محض اتنا ہی لکھا تھا کہ معاملہ ختم نبوّت کے قانون سے متعلق ہو سکتا ہے۔





لیکن حیرت انگیز طور پر اس ٹرینڈ پر پہلی ٹوئیٹس طارق متین کی ٹوئیٹ سے بھی پہلے ہی ہو چکی تھی۔





واضح رہے کہ تحریک لبّیک یا رسول الله، جس کے سیاسی بازو کو تحریک لبّیک پاکستان کہا جاتا ہے، نے نومبر 2017 میں اسلام آباد میں اسی معاملے پر نہ صرف دھرنا دیا تھا بلکہ اس کے لیڈر خادم حسین رضوی نے ایک انٹرویو کے دوران یہاں تک کہہ ڈالا تھا کہ وہ وزیر کو اسٹیج پر ہی گولی مروا دیں گے۔


مزیدخبریں