وفاقی وزیرِ داخلہ احسن اقبال پر اتوار کو ہونے والے حملے کے حوالے سے ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا کہ حملہ آور کا تعلق تحریک لبیک پاکستان سے تھا اور یہ کہ اس نے ابتدائی تفتیش میں بتایا کہ اس کا یہ اقدام ختمِ نبوت کے قانون میں ہونے والی مبیّنہ تبدیلی کے خلاف تھا۔
تاہم صحافی عابد حسین کے مطابق تحریک لبّیک پر الزام لگنے سے بھی کافی پہلے ہی اس کے حامیوں نے ٹوئٹر پر اپنی جماعت کے پُر امن ہونے کا ٹرینڈ چلانا شروع کر دیا تھا۔۔
But for me the most interesting aspect was the emergence of trend #TLPPeacefulOrg . The speed with which it gained traction, its timing when it started, and both the content and the content-creators behind this.
— Abid Hussain (@abidhussayn) May 7, 2018
عابد حسین نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر لکھا کہ اس سب میں سب سے زیادہ دلچسپ امر یہ ٹرینڈ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جتنی تیزی سے یہ ٹرینڈ ٹوئٹر پر کامیاب ہوا، جس وقت اس کا آغاز ہوا، جس قسم کا اس پر مواد ملا اور جس قسم کی مواد لکھنے والے ملے، یہ سب بہت انوکھا تھا۔
"جب میں نے تھوڑا سا کریدنے کی کوشش کی تو نظر آیا کہ اس ٹرینڈ پر سب سے پہلی ٹوئیٹس سات بجے کی قریب کی گئی ہیں۔ جکہ احسن اقبال پر حملے کی خبر ٹی وی پر ساڑھے چھے بجے چلی تھی۔"
A little digging around shows that the first tweets with this hashtag were made some time after 7pm PST.
The news of attack on Ahsan Iqbal came on TV around 6.30pm or so.
— Abid Hussain (@abidhussayn) May 7, 2018
معروف صحافی حسن زیدی کے پوچھنے پر انہو نے بتایا کہ حملہ آور کے تحریک لبّیک کے ساتھ تعلّق بارے افواہیں تقریباً ایک گھنٹے بعد آنا شروع ہوئیں جبکہ صحافی طارق متین نے بھی محض اتنا ہی لکھا تھا کہ معاملہ ختم نبوّت کے قانون سے متعلق ہو سکتا ہے۔
Yep. The rumours about association with the TLP came around an hour or so later.
Tariq Mateen's tweet only highlighted that the attacker might have done it on the Khatam-e-nabuwat issue. https://t.co/qixcMPEDyQ
— Abid Hussain (@abidhussayn) May 7, 2018
لیکن حیرت انگیز طور پر اس ٹرینڈ پر پہلی ٹوئیٹس طارق متین کی ٹوئیٹ سے بھی پہلے ہی ہو چکی تھی۔
yep.
— Abid Hussain (@abidhussayn) May 7, 2018
واضح رہے کہ تحریک لبّیک یا رسول الله، جس کے سیاسی بازو کو تحریک لبّیک پاکستان کہا جاتا ہے، نے نومبر 2017 میں اسلام آباد میں اسی معاملے پر نہ صرف دھرنا دیا تھا بلکہ اس کے لیڈر خادم حسین رضوی نے ایک انٹرویو کے دوران یہاں تک کہہ ڈالا تھا کہ وہ وزیر کو اسٹیج پر ہی گولی مروا دیں گے۔