“ہم ریاست کو بتائیں گے کہ ہمیں مزیدبندوق نہیں چاہیے، ہمیں مزید مسمار یاں نہیں چاہیے۔ ہمیں تعلیم چاہیے ،ہمیں یونیورسٹیاں اور کالج چاہیئں۔”
یہ الفاظ ہیں سنید داوڑ کے جنہیں شمالی وزیرستان میں 3 دوستوں سمیت شہید کر دیا گیا۔ یہ چاروں دوست سیاسی حوالے سے متحرک اور ’یوتھ آف وزیرستان‘ نامی تنظیم کے سر گرم رکن تھے۔
ان چاروں کے قتل کی ذمہ داری اتحاد المجاہدین انصار نے قبول کی ہے۔ اپنے جاری بیان میں میں حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا ان کا ٹارگٹ وقار اور سنید تھے باقی 2 لوگوں کو ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے کی وجہ سے مارا گیا۔
یہ واقعہ اتوار کی دوپہر اس وقت پیش آیا جب سنید اپنے 3 دوستوں کے ساتھ ایک دوست کے ہاں کھانا کھانے کے بعد واپس جا رہے تھے۔ قتل ہونے سے قبل چاروں نوجوانوں نے دوست کے حجرے میں کھانا کھاتے ہوئے ایک تصویر بھی بنائی جو کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے۔
سنید داوڈ نے گزشتہ سال یونیورسٹی آف لاہور سے گریجوایشن کی اور اس کے بعد وہ اپنے علاقے شمالی وزیرستان میں سیاسی و سماجی کاموں میں متحرک تھے۔
حملہ آور کارروائی کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ پولیس نے حسبِ معمول علاقے کو گھیرے میں لے کر تفتیش شروع کر دی گئی ہے اور اس واقعے کے بعد چاروں افراد کی لاشیں میر علی ہسپتال لائی گئی ہیں۔
شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ پولیس جہانزیب خان کے مطابق ’چاروں ساتھی ایک کار میں سوار تھے کہ اچانک موٹر سائیکلوں پر سوار حملہ آور آئے اور گاڑی پر دونوں جانب سے فائرنگ کی۔‘
سنید احمد داوڑ نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ کے سرگرم رکن تھے۔ این ڈی ایم کے سربراہ محسن داوڑ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’سنید احمد داوڑ لاہور یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے تھے اور ایک پروگریسو (ترقی پسند) سوچ رکھنے والے جوان تھے۔‘
رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے مارے جانے والے نوجوانوں کے بارے میں کہا ہے کہ ’وہ دہشت گردی کے خلاف اور امن کے حق میں مضبوط آواز تھے، ریاست کے دہشت گردوں کے ساتھ جاری روابط کی قیمت ہمارے لوگوں کو اپنی جانوں سے ادا کرنا پڑ رہی ہے۔‘
https://twitter.com/mjdawar/status/1538539980619780096
ڈی ایس پی جہانزیب خان نے بتایا کہ ’پولیس اس بارے میں تفتیش کر رہی ہے کہ اس حملے میں کون لوگ ملوث ہو سکتے ہیں۔
ان سے جب پوچھا گیا کہ ماضی میں اس علاقے میں کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان متحرک رہی ہے لیکن اب تنظیم نے جنگ بندی کا اعلان کیا ہے تو ایسے میں یہ کارروائیاں کون کر سکتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس مختلف زاویوں سے اس واقعے کو دیکھ رہی ہے اور اس میں دیگر شدت پسند تنظیموں کے ملوث ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔ اس حملے کی ذمہ داری تاحال کسی تنظیم نے قبول نہیں کی۔‘
معروف محقق اور حقوق خلق پارٹی کے رہنما عمار جان نے بھی سنید داوڑ کے قتل کی مذمت کی اور ریاست اور ریاستی پالیسیوں پر سخت تنقید کی۔
https://twitter.com/ammaralijan/status/1538527041536114688
https://twitter.com/PSCollective_/status/1538532721168896001
اس واقعے کے خلاف علاقے میں سخت غم اور غصہ پایا جاتا ہے۔ جبکہ نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی سمیت، حقوقِ خلق پارٹی اور پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو نے سنید داوڈ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے ان کے قاتلوں کو فی الفور گرفتار کرنے اور کیفر کردار تک پہچانے کا مطالبہ کیا ہے۔ لاہور میں ان تنظیموں کی طرف سے سنید داوڑ اور انکے ساتھیوں کے قتل کے خلاف آج شام 5 بجے لبرٹی چوک میں احتجاجی مظاہرہ کیا جائے گا۔
https://twitter.com/PSCollective_/status/1538594262023032832