ناسٹیلجیا

12:19 PM, 7 Sep, 2019

شوذب عسکری
میں اپنے گاؤں کی اس گلی کا موڑ جہاں میرا نانکا گھر ہے اپنے بچپنے کی انگلی تھام کے مڑنا چاہتا ہوں۔ میں اپنی خالہ نرجس کے گھر سے ہی آ رہا ہوں گا کیونکہ اکثر وہاں ہی سے آنا ہوتا تھا۔ چاچے غفور نائی کی دکان جو کبھی بھی دکان نہیں تھی بس ایک بیٹھک جیسے کمرے کا احاطہ تھا وہاں سے گزروں گا تو ہمیشہ اسے کسی نہ کسی کے بال کاٹتے یا داڑھی بناتے دیکھوں گا۔ سفید دھوتی باندھے، سفید کرتا پہنے اور کندھے پہ صافہ رکھے ہوئے وہ اپنے دانتوں کی کچکچاہٹ کے ساتھ مٹھی میں بھر کے ہاتھ سے چلنے والی بال مونڈنے کی مشین کو چلائے جا رہا ہو گا اور چھوٹے بڑے سفید اور سیاہ انسانی بالوں کا ڈھیر اس  کی ہٹی کی تھڑی پہ اٹا رہے گا۔

میں جب بھی مغرب  کو جانے والی اُس مرکزی گلی میں جس کے آخری سرے سے بائیں  جانب مڑنے پہ گاؤں کا آخری گھر میرے دادکا گھر تھا گزرتا، تو چاچے غفور نائی کے احاطے کے تھڑے پہ چڑھ کے پھر واپس گلی میں چھلانگ لگانا نہ بھولتا۔ شاید میرے بچپن کا ایک نہایت پسندیدہ کھیل تھڑوں پہ چڑھ کے چھلانگیں لگانا تھا۔ میں نے ابھی ابھی ایک ہی لمحے میں کتنی چھلانگوں کو چشم تصور میں دیکھ لیا ہے۔ ہر وہ چھلانگ کا منظر جس میں امی موجود ہے اس میں اس کی جھڑک ہر چھلانگ کے بعد لازم ہے۔ چاچے غفور نائی کے احاطےآگے چلیے تو بائیں ہاتھ پہ جو موڑ ہے وہ نانکے گھر کا ہے۔ 


نانکی نکڑ پہ ایک گھراس (پنجابی دیہاتوں میں بنی گول کمرہ عمارت جس میں آٹا پیسا جاتا تھا) ہے۔ جس میں نجانے کون دانے پیستا تھا۔ کچی مٹی کی وہ بہت اونچی اور بڑا گول کمرہ نما عمارت کس کی تھی، مجھے کچھ خبر نہیں۔ میں نے گلی میں مڑتے ہی ایک دوڑ لگانی ہوتی تھی کیونکہ اس گھراس کی کھڑکی میں کوئی ڈراؤنی مخلوق رہتی تھی۔

وہ مخلوق جسے میں نے کبھی نہیں دیکھا مگر میرے تصور میں اس کی شکل میری نانی جیسی تھی کیونکہ وہی اس کی اکلوتی راوی تھی۔ نانی اماں سردیوں کی راتوں میں مجھے زبردستی سلانے کے لیے لالٹین کی پیلی زرد روشنی میں اپنے ہاتھوں سے سائے بنا بنا کے مجھے ڈرایا کرتی تھی اور یہ نجانے کیوں یہ جملہ بولا کرتی تھی۔

(ناں میرا بچڑا! پوہ ماہ دی رات اچ نہیں جگیندا۔ نہی تاں دریاواں دیاں منڑاں ڈھاہندیاں ان)


نہیں میرا بیٹا، سردیوں کی راتوں میں جاگا نہیں کرتے۔ ورنہ دریاوں کے کنارے گر جاتے ہیں۔
مزیدخبریں