میں جب بھی مغرب کو جانے والی اُس مرکزی گلی میں جس کے آخری سرے سے بائیں جانب مڑنے پہ گاؤں کا آخری گھر میرے دادکا گھر تھا گزرتا، تو چاچے غفور نائی کے احاطے کے تھڑے پہ چڑھ کے پھر واپس گلی میں چھلانگ لگانا نہ بھولتا۔ شاید میرے بچپن کا ایک نہایت پسندیدہ کھیل تھڑوں پہ چڑھ کے چھلانگیں لگانا تھا۔ میں نے ابھی ابھی ایک ہی لمحے میں کتنی چھلانگوں کو چشم تصور میں دیکھ لیا ہے۔ ہر وہ چھلانگ کا منظر جس میں امی موجود ہے اس میں اس کی جھڑک ہر چھلانگ کے بعد لازم ہے۔ چاچے غفور نائی کے احاطےآگے چلیے تو بائیں ہاتھ پہ جو موڑ ہے وہ نانکے گھر کا ہے۔
نانکی نکڑ پہ ایک گھراس (پنجابی دیہاتوں میں بنی گول کمرہ عمارت جس میں آٹا پیسا جاتا تھا) ہے۔ جس میں نجانے کون دانے پیستا تھا۔ کچی مٹی کی وہ بہت اونچی اور بڑا گول کمرہ نما عمارت کس کی تھی، مجھے کچھ خبر نہیں۔ میں نے گلی میں مڑتے ہی ایک دوڑ لگانی ہوتی تھی کیونکہ اس گھراس کی کھڑکی میں کوئی ڈراؤنی مخلوق رہتی تھی۔
وہ مخلوق جسے میں نے کبھی نہیں دیکھا مگر میرے تصور میں اس کی شکل میری نانی جیسی تھی کیونکہ وہی اس کی اکلوتی راوی تھی۔ نانی اماں سردیوں کی راتوں میں مجھے زبردستی سلانے کے لیے لالٹین کی پیلی زرد روشنی میں اپنے ہاتھوں سے سائے بنا بنا کے مجھے ڈرایا کرتی تھی اور یہ نجانے کیوں یہ جملہ بولا کرتی تھی۔
(ناں میرا بچڑا! پوہ ماہ دی رات اچ نہیں جگیندا۔ نہی تاں دریاواں دیاں منڑاں ڈھاہندیاں ان)
نہیں میرا بیٹا، سردیوں کی راتوں میں جاگا نہیں کرتے۔ ورنہ دریاوں کے کنارے گر جاتے ہیں۔