پس منظر:
انتخابی مہم کی شروعات اور مرکزی سیاسی جماعتیں
انتخابات کے انعقاد میں تاخیر:
انتخابات:
قومی اسمبلی نشستوں کی تعداد: 300 (مشرقی پاکستان 162 نشستیں، مغربی پاکستان 138 نشستیں)
مجموعی ٹرن آؤٹ: 59.8 فیصد
ٹرن آؤٹ بریک اپ:
مشرقی پاکستان: 56.9 فیصد
پنجاب: 68.7 فیصد
سندھ: 60.3 فیصد
صوبہ سرحد: 48.5 فیصد
بلوچستان: 40.6 فیصد
خواتین ووٹرز:
مشرقی پاکستان (94.1 فیصد سو مردوں کے تناسب سے) پنجاب (85.5 فیصد) بلوچستان (69.8 فیصد) سندھ (68.1 فیصد) سرحد (61 فیصد) فاٹا (صفر)
عام انتخابات کے نتائج
عوامی لیگ (AL) قومی اسمبلی کی 160 نشستوں پر فاتح (مجموعی طور پر حاصل کردہ ووٹ 39.2 فیصد)
عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی 162 نشستوں میں سے 160 نشستیں جیت کر کلین سویپ کیا۔ بقیہ دو نشستوں پر سابقہ مسلم لیگی نور الامین اور آزاد امیدوار راجہ ترویدی رائے منتخب ہوئے۔ مشرقی پاکستان کی 300 صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں سے 288 نشستیں عوامی لیگ نے جیتیں۔ اس کے علاوہ پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی نے دو، نیشنل عوامی پارٹی - ولی نے ایک، جماعت اسلامی نے ایک اور آزاد امیدواروں نے 7 صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیتیں۔ عوامی لیگ مغربی پاکستان سے ایک بھی قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔
پاکستان پیپلز پارٹی (PPP) قومی اسمبلی کی 81 نشستوں پر فاتح (مجموعی طور پر حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب 18.6 فیصد)
پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان کے دو بڑے صوبوں سے کلین سویپ کیا۔ پنجاب سے اس نے 41.7 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ سندھ سے اسے 44.9 فیصد ووٹ ملے۔ صوبہ سرحد سے اسے ایک نشست ملی جبکہ بلوچستان میں اسے کوئی نشست حاصل نہ ہو سکی۔ پیپلز پارٹی کو مشرقی پاکستان سے بھی کوئی نشست حاصل نہ ہوئی کیونکہ وہاں اس جماعت نے ایک بھی امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔ پیپلز پارٹی نے پنجاب اور سندھ کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھی جیتے۔ پنجاب کی 189 صوبائی نشستوں میں سے اسے 113 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی جبکہ سندھ کی 60 نشستوں میں سے اسے 28 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ پیپلز پارٹی نے بلوچستان سے 3 اور سرحد سے 2 صوبائی اسمبلی کی نشستیں حاصل کیں۔
مسلم لیگ قیوم (ML-Qayyum): قومی اسمبلی کی 9 نشستوں پر فاتح (مجموعی طور پر حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب 4۔5 فیصد)
مسلم لیگ قیوم، مسلم لیگ کے طاقتور ترین دھڑے کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ اس جماعت نے سرحد سے 7 پنجاب سے 1 اور سندھ سے بھی 1 قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کیں۔ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں اسے صوبہ سرحد کی 40 میں سے 10، پنجاب سے 6، سندھ میں 5 اور بلوچستان سے 3 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ اس جماعت نے مشرقی پاکستان سے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔
مسلم لیگ کونسل (ML-Council): قومی اسمبلی کی 7 نشستوں پر فاتح (مجموعی حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب 4 فیصد)
مسلم لیگ کونسل نے اپنی روایتی حریف جماعت مسلم لیگ کنونشن کو پچھاڑ دیا لیکن اسے پیپلز پارٹی سے بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلم لیگ کونسل نے تمام نشستیں پنجاب سے جیتیں۔ اسے مغربی پاکستان کے دیگر حصوں اور مشرقی پاکستان سے کوئی نشست حاصل نہ ہو سکی۔ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں اس جماعت نے پنجاب سے 6 اور سرحد سے 2 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔
جمعیت علمائے اسلام (JUI) قومی اسمبلی کی 7 نشستوں پر فاتح (حاصل کردہ ووٹوں کا مجموعی تناسب 3.9 فیصد)
جمعیت علمائے اسلام انتخابات میں کامیاب ترین مذہبی جماعت بن کر ابھری۔ اس نے قومی اسمبلی کی 7 نشستیں سرحد اور بلوچستان سے جیتیں۔ صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام نے سرحد سے 4 اور بلوچستان سے 2 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔
جمعیت علمائے پاکستان: قومی اسمبلی کی 7 نشستوں پر فاتح (حاصل کردہ ووٹوں کا مجموعی تناسب 3.9 فیصد)
جمعیت علمائے پاکستان نے قومی اسمبلی کی 7 نشستیں پنجاب اور سندھ (بالخصوص کراچی) سے حاصل کیں۔ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں اس جماعت نے سندھ سے 7 اور پنجاب سے 4 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔
نیشنل عوامی پارٹی - ولی: قومی اسمبلی کی 4 نشستوں (حاصل کردہ ووٹوں کا مجموعی تناسب 2.4 فیصد)
نیشنل عوامی پارٹی - ولی نے بلوچستان اور سرحد سے کل 6 قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اس جماعت نے مشرقی پاکستان سے بھی اپنے انتخابی امیدوار کھڑے کیے تھے۔ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں اس جماعت نے سرحد سے 13 اور بلوچستان سے 8 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔
جماعت اسلامی: 4 قومی اسمبلی کی نشستیں (حاصل کردہ ووٹوں کا مجموعی تناسب 6 فیصد)
جماعت اسلامی کی مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں میں عوامی تقلید ہونے کی وجہ سے عام انتخابات میں اسے ایک بھرپور سیاسی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آنے والی جماعت تصور کیا جا رہا تھا۔ لیکن اس کے برعکس انتخابات کے نتائج جماعت اسلامی کیلئے حد درجہ مایوس کن رہے۔ جماعت اسلامی سندھ سے 2، پنجاب سے 1 اور سرحد سے بھی محض 1 قومی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ جماعت اسلامی کو مشرقی پاکستان سے ایک بھی نشست حاصل نہ ہو سکی لیکن مشرقی پاکستان میں اسے پڑنے والے ووٹوں کا تناسب عوامی لیگ کے بعد سب سے زیادہ تھا۔ (عوامی لیگ 75.1 فیصد جماعت اسلامی 6.1 فیصد)۔
صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے مشرقی پاکستان سے 1 پنجاب سے 1 سندھ سے 1 اور سرحد سے بھی 1 نشست پر کامیابی حاصل کی۔
نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (NDP) نے ایک قومی اسمبلی کی نشست جیتی جبکہ آزاد امیدوار قومی اسمبلی کی 16 نشستوں پر کامیاب ہوئے۔
پھر اس کے بعد کیا ہوا؟
مقامی اور غیر ملکی اخبارات میں انتخابی نتائج کو جمہوری اور بائیں بازو کی ترقی پسند قوتوں کی فتح قرار دیا گیا۔ عوامی لیگ کو اکثریتی جماعت قرار دیا گیا جبکہ پیپلز پارٹی کو دوسری بڑی جماعت قرار دیا گیا۔ یحییٰ خان نے نو منتخب اسمبلی کے نمائندوں سے قومی اسمبلی کا اجلاس بلوا کر حکومت سازی اور قانون سازی کے عمل کا آغاز کرنے کو کہا۔ البتہ متعدد اخبارات میں عوامی لیگ کے قائد شیخ مجیب الرحمان کا بیان چھپا کہ "اب بنگلہ دیش کے قیام کو کوئی بھی نہیں روک سکتا"۔ بھٹو نے مجیب سے یہ بیان واپس لینے کیلئے کہا، حالانکہ مجیب پہلے ہی بول چکا تھا کہ اس کے بیان کو غلط انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ پھر بھٹو نے مجیب کو مشرقی پاکستان کو مکمل صوبائی خود مختاری دینے کے مطالبے سے دستبردار ہونے کو کہا، لیکن شیخ مجیب نے اسے مسترد کیا اور کہا کہ اسی وعدے کی بنا پر مشرقی پاکستان کے لوگوں نے عوامی لیگ کو ووٹ ڈالے تھے۔ اس کے بعد بھٹو نے نو منتخب اسمبلی کے پہلے اجلاس میں اپنے منتخب کردہ اراکین کو شرکت سے روک دیا اور یحییٰ انتظامیہ نے اس اجلاس کو کینسل کر دیا۔ یحییٰ، بھٹو اور مجیب نے ڈھاکہ میں مسئلے کے حل کیلئے انتھک مذاکرات کا آغاز کر دیا۔
مذاکرات ناکام ہو گئے اور مجیب کو غداری کے الزام میں پابند سلاسل کر دیا گیا۔ اسے مغربی پاکستان کی جیل میں قید کیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں اس کے باعث حالات بگڑے اور وہاں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ بنگالی عسکریت پسندوں اور پاکستانی افواج کے مظالم کے باعث ہزاروں بنگالی، غیر بنگالی اور سپاہی مارے گئے۔ بھارت نے دسمبر 1971 میں بنگالی عسکریت پسندوں کی حمایت کر دی۔ امریکہ اور چین نے مغربی پاکستان کے مؤقف کی تائید کی جبکہ روس اور زیادہ تر یورپی ممالک نے عوامی لیگ کی تائید کی۔ دسمبر کے وسط تک پاکستانی افواج نے مشرقی پاکستان کا انتظام کھونا شروع کر دیا اور وہاں سے واپس آنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مجیب کو رہا کر دیا گیا جبکہ فوج کے چند اعلیٰ افسران نے یحییٰ خان کو استعفا دینے پر مجبور کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور اس کی جماعت پیپلز پارٹی کو انتخابات میں مغربی پاکستان سے کامیابی حاصل کرنے کے باعث مغربی پاکستان میں اقتدار سونپ دیا گیا۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ پیپلز پارٹی پاکستان کی حکمران جماعت بن گئی اور پنجاب اور سندھ میں صوبائی حکومتیں بھی تشکیل دینے میں کامیاب ہو گئی۔ نیشنل عوامی پارٹی - ولی جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ مل کر سرحد اور بلوچستان میں مخلوط صوبائی حکومتیں تشکیل دینے میں کامیاب ہو گئی۔