48 برس قبل جب پاکستان میں پہلے عام انتخابات منعقد ہوئے

48 برس قبل جب پاکستان میں پہلے عام انتخابات منعقد ہوئے
7 دسمبر 1970 کو پاکستان میں پہلی بار بالغ حق رائے دہی کے تحت عام انتخابات کا انعقاد ہوا۔ قومی اسمبلی کیلئے عام انتخابات 7 دسمبر کو منعقد کیے گئے جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات 17 دسمبر کو منعقد کیے گئے۔

پس منظر:


1968: بائیں بازو پر مبنی ایک پرتشدد تحریک جو کہ ایوب خان کی "ترقی پسند" اور امریکہ نواز آمرانہ حکومت کے خلاف چلائی گئی۔ ایوب حکومت کو سرمایہ دارانہ استحصالی قوتوں کا ساتھی قرار دیا گیا اور اسے ملک میں غربت کے بڑھنے کا مرتکب ٹھہرایا گیا۔


25 مارچ 1969: ایوب خان نے مارچ 1969 میں استعفا دے دیا اور اقتدار جنرل یحییٰ خان کے سپرد کر دیا جس نے ملک میں دوسرا مارشل لا نافذ کر دیا۔ یحییٰ کا اصرار تھا کہ اس کا مقصد آئینی حکومت کے قیام کیلئے سازگار حالات کو پیدا کرنا تھا۔


نومبر 28، 1969: یحییٰ نے اعلان کیا کہ 5 اکتوبر 1970 کو ملک میں بالغ حق رائے دہی کے تحت پہلے عام انتخابات کا انعقاد کیا جائے گا۔ اس کا مزید کہنا تھا کہ منتخب قومی اسمبلی پہلے 120 دنوں کے اندر نئے منشور کا عمل مکمل کرے گی۔


جنوری 1970: سیاسی سرگرمیوں پر عائد پابندی اٹھا لی گئی۔

انتخابی مہم کی شروعات اور مرکزی سیاسی جماعتیں


عوامی لیگ (AL): 1950 میں قائم ہونے والی عوامی لیگ مضبوط بنگالی قوم پرست سیاسی جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ یہ اپنے سیاسی نظریے کی اعتبار سے سیکیولر تھی اور بائیں بازو کی جانب جھکاؤ رکھتی تھی۔ انتخابی مہم میں اس جماعت کا محور بنگالیوں کے معاشی اور سیاسی حقوق کی بحالی کرنا تھا جنہیں عوامی لیگ کے مطابق مغربی پاکستان کی حکمران اشرافیہ نے صلب کر رکھا تھا۔


1979: عوامی لیگ کے صدر شیخ مجیب سابقہ مشرقی پاکستان کے شہر ڈھاکہ میں ایک بڑی انتخابی ریلی میں شرکت کرتے ہوئے۔


پاکستان پیپلز پارٹی (PPP):1967 میں ذوالفقار بھٹو کی قائم کردہ سیاسی جماعت پیپلز پارٹی انتہائی کم مدت میں مغربی پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جماعت کے طور پر سیاسی افق پر ابھری۔ اس کی نظریاتی وابستگی بائیں بازو، پاپولسٹ اور سیکیولر سیاست سے تھی۔ لیکن اس جماعت نے ایسی معیشت کا ذکر کیا جس کی بنیاد اسلامی سوشلزم تھا۔ یہ اسلامی سوشلزم، سوشلزم اور اسلام کے مساوات کے نظریے کی آمیزش پر مبنی نظریہ تھا۔


بھٹو نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز نشتر پارک کراچی میں ایک ریلی منعقد کر کے کیا۔


نیشنل عوامی پارٹی (ولی) (National Awami Party - Wali): نیشنل عوامی پارٹی کا قیام 1958 میں بائیں بازو کے بلوچ، پشتون، بنگالی اور سندھی قوم پرستوں کی جانب سے عمل میں لایا گیا۔ 1967 میں یہ جماعت دو دھڑوں میں تقسیم ہو گئی۔ سوؤیت یونین سے ہمدردی رکھنے والا دھڑا نیشنل عوامی پارٹی (ولی) جبکہ چین کی جانب جھکاؤ رکھنے والا دھڑا نیشنل عوامی پارٹی (بھاشانی) میں تبدیل ہو گیا۔ ولی خان کا دھڑا زیادہ مضبوط تھا اور یہ سوشلسٹ اور سیکیولر تھا جو سندھ، سرحد، بلوچستان اور مشرقی پاکستان کے صوبوں کی خودمختاری کی بات کرتا تھا۔ پشتون قوم پرست ولی خان اور بلوچ قوم پرست غوث بخش بزنجو اس جماعت کے مرکزی رہنما تھے۔


نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما ولی خان کا پشاور میں انتخابی مہم کے دوران ان کے سپورٹرز استقبال کر رہے ہیں۔


کنونشن مسلم لیگ (ML- Convention): 1962 میں ایوب خان کی بنائی گئی سیاسی جماعت مسلم لیگ کنونشن اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کرنے والی سیاسی جماعت تھی۔ ایوب خان کی انڈسٹریلائزیشن کی پالیسیوں کا اس جماعت نے دفاع کیا۔ گو یہ جماعت مجموعی طور پر اعتدال پسند تھی لیکن ایوب حکومت کے خاتمے کے بعد اس کا جھکاؤ دائیں بازو کی جانب ہو گیا۔


1969 میں اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد بھی ایوب خان اس جماعت کے سربراہ رہے۔ لیکن ایف کیو چوہدری (تصویر میں ہار پہنے نظر آ رہے ہیں) نے اس جماعت کی انتخابی مہم کی قیادت کی۔


کونسل مسلم لیگ (ML-Council): مسلم لیگ کونسل کا قیام 1962 میں عمل میں لایا گیا اور اس کا بنیادی مقصد ایوب خان کی جماعت مسلم لیگ کنونشن کی مخالفت تھا۔ اس جماعت کی قیادت ممتاز دولتانہ کے پاس تھی جن کی سیاسی سرگرمیوں پر ایوب خان نے پابندی عائد کر رکھی تھی۔


ممتاز دولتانہ (درمیان میں براجمان ہیں) مسلم لیگ کونسل کے دو رہنماؤں کے ہمراہ۔


مسلم لیگ-قیوم (ML-Qayyum): بزرگ سیاستدان عبدالقیوم خان نے مسلم لیگ کونسل سے اپنی راہیں جدا کرنے کے بعد 1969 میں اس جماعت کی بنیاد رکھی۔ مسلم لیگ قیوم نے صوبہ سرحد میں پشتون قوم پرستوں کا اثر رسوخ کم کرنے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔


قیوم خان لاہور میں ایک انتخابی ریلی کی قیادت کر رہے ہیں۔


جمعیت علمائے اسلام (JUI): جمیعت علمائے اسلام ایک مذہبی سیاسی جماعت تھی اور دیوبندی مذہبی فرقے کی نمائندگی کرتی تھی۔ یہ وہ واحد مذہبی جماعت تھی جس نے جماعت اسلامی کے اس فتویٰ پر دستخط نہیں کیے تھے جس کے مطابق پیپلز پارٹی ملحد سوشلزم کا پرچار کر کے گناہ کا مرتکب ہوئی تھی۔ جمعیت علمائے اسلام جماعت اسلامی کی مخالف تھی اور دراصل پیپلز پارٹی سے انتخابی اتحاد کر کے نیشنل عوامی پارٹی اور جماعت اسلامی کو بلوچستان اور سرحد میں شکست دینا چاہتی تھی۔ اس جماعت کی قیادت مولانا مفتی محمود کے سپرد تھی۔


مفتی محمود پاکستان ٹیلی وژن پر اپنی جماعت کا منشور پیش کر رہے ہیں۔


جمیعت علمائے پاکستان (JUP): یہ جماعت مذہبی تھی اور بریلوی فرقے کی نمائندہ تھی۔ جمعیت علمائے پاکستان ملک میں شریعت کا نفاذ چاہتی تھی اور صوفیا کے مزارات اور مساجد کو اس سرکاری تسلط سے آزاد کروانا چاہتی تھی جو ایوب خان حکومت نے قائم کیا تھا۔ اس جماعت کی قیادت مولانا شاہ احمد نورانی کر رہے تھے۔


شاہ احمد نورانی (درمیان میں براجمان ہیں) جھنگ میں انتخابی ریلی کے دوران اپنی جماعت کے چند رہنماؤں کے ساتھ۔


جماعت اسلامی (JI): جماعت اسلامی شرعی نظام کے نففاذ کیلئے کوشاں تھی۔ یہ بائیں بازو کی جماعتوں کی کٹر مخالف تھی۔ اس جماعت کی قیادت ابو الاعلیٰ مودودی کے پاس تھی۔


مودودی پاکستان ٹیلی وژن پر اپنی جماعت کا منشور پڑھتے ہوئے۔

انتخابات کے انعقاد میں تاخیر:


اگست 1970 میں مشرقی پاکستان میں ایک تباہ کن طوفان آیا جس کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے۔ یحییٰ خان کی انتظامیہ نے اعلان کیا کہ اکتوبر میں منعقد ہونے والے انتخابات اب دسمبر میں منعقد کیے جائیں گے۔ عام انتخابات کی نئی تاریخیں 7 دسمبر قومی اسمبلی اور 17 دسمبر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کیلئے مقرر کی گئیں۔

انتخابات:


خواتین کراچی میں اپنا ووٹ ڈال رہی ہیں۔


یحییٰ خان ووٹ ڈالتے ہوئے: کہا جاتا ہے انہوں نے مسلم لیگ کنونشن کو ووٹ ڈالا تھا۔


قومی اسمبلی نشستوں کی تعداد: 300 (مشرقی پاکستان 162 نشستیں، مغربی پاکستان 138 نشستیں)

مجموعی ٹرن آؤٹ: 59.8 فیصد

ٹرن آؤٹ بریک اپ:

مشرقی پاکستان: 56.9 فیصد

پنجاب: 68.7 فیصد

سندھ: 60.3 فیصد

صوبہ سرحد: 48.5 فیصد

بلوچستان: 40.6 فیصد

خواتین ووٹرز:


مشرقی پاکستان (94.1 فیصد سو مردوں کے تناسب سے) پنجاب (85.5 فیصد) بلوچستان (69.8 فیصد) سندھ (68.1 فیصد) سرحد (61 فیصد) فاٹا (صفر)

عام انتخابات کے نتائج



عوامی لیگ (AL) قومی اسمبلی کی 160 نشستوں پر فاتح (مجموعی طور پر حاصل کردہ ووٹ 39.2 فیصد)


عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی 162 نشستوں میں سے 160 نشستیں جیت کر کلین سویپ کیا۔ بقیہ دو نشستوں پر سابقہ مسلم لیگی نور الامین اور آزاد امیدوار راجہ ترویدی رائے منتخب ہوئے۔ مشرقی پاکستان کی 300 صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں سے 288 نشستیں عوامی لیگ نے جیتیں۔ اس کے علاوہ پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی نے دو، نیشنل عوامی پارٹی - ولی نے ایک، جماعت اسلامی نے ایک اور آزاد امیدواروں نے 7 صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیتیں۔ عوامی لیگ مغربی پاکستان سے ایک بھی قومی یا صوبائی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب نہ ہو سکی۔

پاکستان پیپلز پارٹی (PPP) قومی اسمبلی کی 81 نشستوں پر فاتح (مجموعی طور پر حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب 18.6 فیصد)


پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان کے دو بڑے صوبوں سے کلین سویپ کیا۔ پنجاب سے اس نے 41.7 فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ سندھ سے اسے 44.9 فیصد ووٹ ملے۔ صوبہ سرحد سے اسے ایک نشست ملی جبکہ بلوچستان میں اسے کوئی نشست حاصل نہ ہو سکی۔ پیپلز پارٹی کو مشرقی پاکستان سے بھی کوئی نشست حاصل نہ ہوئی کیونکہ وہاں اس جماعت نے ایک بھی امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔ پیپلز پارٹی نے پنجاب اور سندھ کی صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھی جیتے۔ پنجاب کی 189 صوبائی نشستوں میں سے اسے 113 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی جبکہ سندھ کی 60 نشستوں میں سے اسے 28 نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ پیپلز پارٹی نے بلوچستان سے 3 اور سرحد سے 2 صوبائی اسمبلی کی نشستیں حاصل کیں۔

پیپلز پارٹی کا لاہور سے فاتح امیدوار


عوامی لیگ کے چند جیتنے والے امیدوار ڈھاکہ میں جیت کا جشن مناتے ہوئے۔

مسلم لیگ قیوم (ML-Qayyum): قومی اسمبلی کی 9 نشستوں پر فاتح (مجموعی طور پر حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب 4۔5 فیصد)


مسلم لیگ قیوم، مسلم لیگ کے طاقتور ترین دھڑے کے طور پر ابھر کر سامنے آئی۔ اس جماعت نے سرحد سے 7 پنجاب سے 1 اور سندھ سے بھی 1 قومی اسمبلی کی نشستیں حاصل کیں۔ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں اسے صوبہ سرحد کی 40 میں سے 10، پنجاب سے 6، سندھ میں 5 اور بلوچستان سے 3 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل ہوئی۔ اس جماعت نے مشرقی پاکستان سے کوئی امیدوار کھڑا نہیں کیا تھا۔

مسلم لیگ کونسل (ML-Council): قومی اسمبلی کی 7 نشستوں پر فاتح (مجموعی حاصل کردہ ووٹوں کا تناسب 4 فیصد)


مسلم لیگ کونسل نے اپنی روایتی حریف جماعت مسلم لیگ کنونشن کو پچھاڑ دیا لیکن اسے پیپلز پارٹی سے بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلم لیگ کونسل نے تمام نشستیں پنجاب سے جیتیں۔ اسے مغربی پاکستان کے دیگر حصوں اور مشرقی پاکستان سے کوئی نشست حاصل نہ ہو سکی۔ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں اس جماعت نے پنجاب سے 6 اور سرحد سے 2 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

جمعیت علمائے اسلام (JUI) قومی اسمبلی کی 7 نشستوں پر فاتح (حاصل کردہ ووٹوں کا مجموعی تناسب 3.9 فیصد)


جمعیت علمائے اسلام انتخابات میں کامیاب ترین مذہبی جماعت بن کر ابھری۔ اس نے قومی اسمبلی کی 7 نشستیں سرحد اور بلوچستان سے جیتیں۔ صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام نے سرحد سے 4 اور بلوچستان سے 2 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

جمعیت علمائے پاکستان: قومی اسمبلی کی 7 نشستوں پر فاتح (حاصل کردہ ووٹوں کا مجموعی تناسب 3.9 فیصد)


جمعیت علمائے پاکستان نے قومی اسمبلی کی 7 نشستیں پنجاب اور سندھ (بالخصوص کراچی) سے حاصل کیں۔ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں اس جماعت نے سندھ سے 7 اور پنجاب سے 4 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

نیشنل عوامی پارٹی - ولی: قومی اسمبلی کی 4 نشستوں (حاصل کردہ ووٹوں کا مجموعی تناسب 2.4 فیصد)


نیشنل عوامی پارٹی - ولی نے بلوچستان اور سرحد سے کل 6 قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اس جماعت نے مشرقی پاکستان سے بھی اپنے انتخابی امیدوار کھڑے کیے تھے۔ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں اس جماعت نے سرحد سے 13 اور بلوچستان سے 8 صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔

جماعت اسلامی: 4 قومی اسمبلی کی نشستیں (حاصل کردہ ووٹوں کا مجموعی تناسب 6 فیصد)


جماعت اسلامی کی مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں میں عوامی تقلید ہونے  کی وجہ سے عام انتخابات میں اسے ایک بھرپور سیاسی قوت کے طور پر ابھر کر سامنے آنے والی جماعت تصور کیا جا رہا تھا۔ لیکن اس کے برعکس انتخابات کے نتائج جماعت اسلامی کیلئے حد درجہ مایوس کن رہے۔ جماعت اسلامی سندھ سے 2، پنجاب سے 1 اور سرحد سے بھی محض 1 قومی اسمبلی کی نشست جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ جماعت اسلامی کو مشرقی پاکستان سے ایک بھی نشست حاصل نہ ہو سکی لیکن مشرقی پاکستان میں اسے پڑنے والے ووٹوں کا تناسب عوامی لیگ کے بعد سب سے زیادہ تھا۔ (عوامی لیگ 75.1 فیصد جماعت اسلامی 6.1 فیصد)۔

صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں جماعت اسلامی نے مشرقی پاکستان سے 1 پنجاب سے 1 سندھ سے 1 اور سرحد سے بھی 1 نشست پر کامیابی حاصل کی۔

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (NDP) نے ایک قومی اسمبلی کی نشست جیتی جبکہ آزاد امیدوار قومی اسمبلی کی 16 نشستوں پر کامیاب ہوئے۔

مسلم لیگ قیوم کے سپورٹرز 9 قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی کے بعد اپنے قائد کا خطاب سنتے ہوئے۔


نیشنل عوامی پارٹی کے سپورٹرز انتخابات کے بعد کوئٹہ میں اپنی جماعت کے مرکزی دفتر کے گرد جمع ہیں۔

پھر اس کے بعد کیا ہوا؟


مقامی اور غیر ملکی اخبارات میں انتخابی نتائج کو جمہوری اور بائیں بازو کی ترقی پسند قوتوں کی فتح قرار دیا گیا۔ عوامی لیگ کو اکثریتی جماعت قرار دیا گیا جبکہ پیپلز پارٹی کو دوسری بڑی جماعت قرار دیا گیا۔ یحییٰ خان نے نو منتخب اسمبلی کے نمائندوں سے قومی اسمبلی کا اجلاس بلوا کر حکومت سازی اور قانون سازی کے عمل کا آغاز کرنے کو کہا۔ البتہ متعدد اخبارات میں عوامی لیگ کے قائد شیخ مجیب الرحمان کا بیان چھپا کہ "اب بنگلہ دیش کے قیام کو کوئی بھی نہیں روک سکتا"۔ بھٹو نے مجیب سے یہ بیان واپس لینے کیلئے کہا، حالانکہ مجیب پہلے ہی بول چکا تھا کہ اس کے بیان کو غلط انداز میں پیش کیا گیا تھا۔ پھر بھٹو نے مجیب کو مشرقی پاکستان کو مکمل صوبائی خود مختاری دینے کے مطالبے سے دستبردار ہونے کو کہا، لیکن شیخ مجیب نے اسے مسترد کیا اور کہا کہ اسی وعدے کی بنا پر مشرقی پاکستان کے لوگوں نے عوامی لیگ کو ووٹ ڈالے تھے۔ اس کے بعد بھٹو نے نو منتخب اسمبلی کے پہلے اجلاس میں اپنے منتخب کردہ اراکین کو شرکت سے روک دیا اور یحییٰ انتظامیہ نے اس اجلاس کو کینسل کر دیا۔ یحییٰ، بھٹو اور مجیب نے ڈھاکہ میں مسئلے کے حل کیلئے انتھک مذاکرات کا آغاز کر دیا۔

بھٹو اور یحییٰ لاڑکانہ میں ملاقات کرتے ہوئے۔


شیخ مجیب الرحمان اور ذوالفقار علی بھٹو


یحییٰ مذاکرات کی ناکامی کے بعد


مذاکرات ناکام ہو گئے اور مجیب کو غداری کے الزام میں پابند سلاسل کر دیا گیا۔ اسے مغربی پاکستان کی جیل میں قید کیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں اس کے باعث حالات بگڑے اور وہاں خانہ جنگی شروع ہو گئی۔ بنگالی عسکریت پسندوں اور پاکستانی افواج کے مظالم کے باعث ہزاروں بنگالی، غیر بنگالی اور سپاہی مارے گئے۔ بھارت نے دسمبر 1971 میں بنگالی عسکریت پسندوں کی حمایت کر دی۔ امریکہ اور چین نے مغربی پاکستان کے مؤقف کی تائید کی جبکہ روس اور زیادہ تر یورپی ممالک نے عوامی لیگ کی تائید کی۔ دسمبر کے وسط تک پاکستانی افواج نے مشرقی پاکستان کا انتظام کھونا شروع کر دیا اور وہاں سے واپس آنے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مجیب کو رہا کر دیا گیا جبکہ فوج کے چند اعلیٰ افسران نے یحییٰ خان کو استعفا دینے پر مجبور کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو اور اس کی جماعت پیپلز پارٹی کو انتخابات میں مغربی پاکستان سے  کامیابی حاصل کرنے کے باعث مغربی پاکستان میں اقتدار سونپ دیا گیا۔ مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ پیپلز پارٹی پاکستان کی حکمران جماعت بن گئی اور پنجاب اور سندھ میں صوبائی حکومتیں بھی تشکیل دینے میں کامیاب ہو گئی۔ نیشنل عوامی پارٹی - ولی جمعیت علمائے اسلام کے ساتھ مل کر سرحد اور بلوچستان میں مخلوط صوبائی حکومتیں تشکیل دینے میں کامیاب ہو گئی۔

دسمبر 1970: یحییٰ خان بھٹو کو اقتدار منتقل کرتے ہوئے


بھٹو مجیب کو رہا کرنے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے، مجیب لندان پرواز کر گیا اور وہاں سے ڈھاکہ واپس پہنچا۔