تفصیلات کے مطابق شفاعت علی نے مری سانحے کے بعد ' بائیکاٹ مری' کا ٹویٹ کیا۔
شفاعت علی کے اس ٹویٹ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایمان مزاری نے لکھا کہ 'حکومت مری میں داخلے کی نگرانی/ریگولیٹ نہیں کر سکی، حقیقت یہ ہے کہ ایک حکومتی وزیر سیاحوں کے مری جانے کے لیے مزید حوصلہ افزائی فراہم کر رہے تھے، فوج سو رہی تھی کہ اس کے محلے میں لوگ اپنی گاڑیوں میں مر رہے تھے جبکہ حکومت کی جانب سے تیاری اور حکمت عملی کا فقدان تھا۔'
ایمان مزاری کے اس ٹویٹ پر جواب دیتے ہوئے شفاعت علی نے لکھا کہ 'جب انتظامیہ پہ تنقید کی تو شاید آپ محو استراحت تھی۔ پبلک بنچوں پر کیلیں ٹھوکنے سے لے کر، برف باری میں لوگوں کی گاڑیاں 5 5 ہزار کے کر چھڑانے تک، روم رینٹ پچاس ہزار تک بڑھانے تک، خواتین سے بد تمیزی کرنے سے لے کر پارکنگ کے 1000 چارج کرنے تک مری کی ہوٹل مافیا کا بائیکاٹ ضروری ہے۔'
شفاعت علی کے اس جواب پر ایمان مزاری نے جواب دیتے ہوئے لکھا کہ 'شایدآپ کومیری بات سمجھ نہیں آئی،جب یہ سب ہورہاتھاتو ریاست کہاں تھی؟ ذمہ داری ریاست کی تھی جو سیاحت کوفروغ دینا چاہتی تھی لیکن جب سیاح آگئےتوریاست کہہ رہی ہم تیار نہیں تھےاور ذمہٰ داری سیاحوں اور ہوٹل مالکان پر ڈال کر بری ہورہے، ریاست نےکونساگورنر ہاؤسز اور فوجی میس کےدروازےکھولے؟'
اس پر جواب دیتے ہوئے شفاعت علی نے لکھا کہ'دیگر درخواست یہ ہے کہ اپنی دلیل دیتے ہوئے گالی دینے سے اجتناب کریں۔ شکریہ'
شفاعت علی کے اس ٹویٹ کے جواب میں ایمان مزاری نے لکھا کہ 'اختلاف اور تنقید گالی نہیں ہوتی... میں آپ سے مُکالمہ کررہی ہوں اور کہیں گالی نہیں دی۔ اختلاف اور تنقید کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہونا چاہئے، گالی کا الزام لگا کر بحث کا رُخ غلط طرف نہیں لے جانا چاہئیے۔'
دونوں شخصیات کے درمیان تکرار کا یہ سلسلہ یہیں نہیں رکا، اس ٹویٹ کے جواب میں شفاعت علی نے لکھا کہ 'مکالمہ بصد شوق، مگر ففتھ جنریشن کے الفاظ آپ انکو کہیں جو اس کام کے پیسے لیتے ہیں۔ نیز اختلاف فکر کیلئے stupid اور evil جیسے الفاظ دوران مکالمہ مترادفات میں استعمال کریں۔'
دونوں شخصیات کے درمیان اس حوالے سے بحث جاری ہے۔ تاہم ایمان مزاری نے ابھی تک شفاعت علی کی آخری ٹویٹ کا جواب نہیں دیا۔