نظم: اعتبار کیوں کیا؟

11:13 PM, 11 Feb, 2019

خورشید انور درانی
نقلی تھا بھیس تیرے وعدے پھوک
کیا تم نے ہے برسوں استحصال
چلے پیچھے تیرے تھے بھیڑ کی چال
میرے ہم وطنوں کا تھا بھول پن

یہ تھے کٹتے مرتے نام پہ تیرے
تجھے سمجھ کے بیٹھے مسیحا تھے یہ
کبھی ریت کی بنی دیوار مگر
ہوئی سائبان کریں لاکھ جتن

تجھے آزما کے پھر آزما
جو لگا کے رکھیں تھیں باریاں
نہج اُس پر آن یہ پہنچا دیس
ہوئی پوری کی پوری معاش دفن

اِس در سے مانگ کبھی اُس در سے
مٹی میں شان گئی ملِ ساری
دبی قوم ہے جس قرضے کے تلے
تھیں عیاشیاں تیری راہزن

دل میں اگر رکھتے قوم کا درد
کوئی سادگی یا شعار بھی تو
ڈھانپے ہوتے سب دھرتی کے
پیاسے بھوکے اور ننگے بدن

وہ اپنی سکا نہ ہی بھوک مٹا
ڈاکو خود ہی تھا حاکمِ وقت
چھل کیا سمیٹ دھن زر سارا
سب لے کے اُڑا کسی اور وطن

گئی بیت صدی ہمیں سوئے ہوئے
اب سعی ہے لازم کرنا ہوگی
یوں کہ مستقبل نئی نسلوں کا
بنے تابناک نہ کہ بے ثمن
مزیدخبریں