کیچ تربت اب بھی یتیمی کا رونا اس لیے رو رہا ہے کہ تربت میں اسوقت 114کے قریب ٹیچرز تاحال بحال نہیں ہوئے، اگر انکو اس بنیاد پر معطل کر دیا گیا کہ کہ وہ ڈیوٹی نہیں دے رہے تو یہ اصول و قانون صرف اُن لوگوں کے لیے کیوں ہے کہ جن کا کسی بااَثر خاندان سے تعلق نہیں ہے۔۔؟؟؟
بات اگر خاصری یا غیر حاضری کی ہے تو سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی اطلاعات کے مطابق متعلقہ محکمے سے تعلق رکھنے والے بااَثر افسران کے بندے کیوں اس زد میں نہیں آئے ۔۔؟؟ انکے خلاف کیوں کارروائی نہیں کی جاسکتی ؟
اسوقت سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ تربت کے چار صوبائی نمائندے بشمول وزیر و مشیر اور ایک ایم این اے اسمبلی میں موجود ہیں مگر انکے مسائل پر کوئی خاطر خواہ بات سامنے نہیں آ رہی۔ تین مہینے سے متاثرین در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں مگر کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔
کالم کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ جو ٹیچرز ڈیوٹی نہیں دیتےجنکی لاپروائی کی وجہ سے معاشرہ اندھیرے اور جہالت کی طرف بڑھ رہا ہے، ان کے خلاف کارروائی نہ کی جائے تاہم اسوقت بات حق و سچائی اور اصول و ضوابط کی ہے جو یکساں نظر نہیں آ رہی، طبقاتی فرق ہے ،اُس طبقاتی فرق کے خلاف آواز اُٹھانا بے آوازوں کی آواز بننا ہماری ذمے داری ہے۔ اصول ایسے بنائیں تاکہ اس پہ کوئی اثرانداز نہ ہو، اگر کوئی اپنے بنائے ہوئے اصولوں کی خود پاسداری نہیں کرسکتا تو یہ توقع دوسروں سے رکھنا بے معنی ہے۔
اسوقت بلکل اسی طرح کی صورتحال متاثرین اساتذہ کی ہے۔ نہ ہم غیرحاضر ٹیچرز کی طرف داری کرتے ہیں اور ناہی حکومت کے کمزور بیانیے کی، بات میکانزم اور اصولوں کی ہے۔ اس وقت حکومت اور انتظامیہ کا موقف کمزور اور جانبدار ہے، جب کہ ٹیچرز مظلوم ہیں۔