تربت کے متاثر اساتذہ اور نمائندوں کی خاموشی

تربت کے متاثر اساتذہ اور نمائندوں کی خاموشی
لکھاری: (گہرام اسلم بلوچ ) گزشتہ تین مہینے سے بلوچستان کی موجودہ سرکار نے مختلف اضلاع میں متعدد اساتذہ کو  بیک جنبش قلم ٹرمینیٹ کیا جارہا ہے۔ شاید موجودہ حکومت ہی اسکو اپنا بہتر کارنامہ سمجھتی ہے، جہاں تک بات اداروں کی بہتری اور ریفارمز کی ہے تو جہاں بھی جس نے بھی تبدیلی کا سوچ بھی لیا تو شروعات خود سے کیا مگر ہمارے ہاں صورت حال بلکل اسکے برعکس ہے، اپنے ہر عمل و اقدام کو چھپانے اور دوسروں کی جائز اور ایمانداری  کا ناجائز فائدہ اُٹھا کر  تادیبی کاروائی کرانا، محض ہم یہ تاثر لے سکتے ہیں کہ عوام کے سامنے خود کو تبدیلی کا علمبردار اور صادق و امین ثابت کرنا ہے، مگر اس سماج کے حکمرانوں کی تلخ حقیقت اور تاریخ یہی ہے کہ اصول خود بناؤ مگر دوسروں کے لیے، خود پہ کبھی یہ قانون لاگو نہیں ہوگا۔ اگر موجودہ صوبائی حکومت واقعی سمجھتی ہے کہ شعبہ تعلیم میں ریفارمز لانے کی ضرورت ہے اور اسکی شروعات ہی ایسے اساتذہ سے کرنی ہے کہ جو گھر بیٹھ کر تنخواہ لے رہے ہیں اور ڈیوٹی  سے غیر خاصر ہیں، تو ہم سمجھتے ہیں ڈیوٹی نہ دینے والے وہ بہادر سرکاری ملازم ہوتے ہیں کہ جنکی پشت پنائی کرنے والے بھی تبدیلی کے راگ الاپنے والے ہیں۔ اس مسئلے میں زیادہ تر مکران اس لیے متاثر ہوا کہ اس وقت مکران عملی طور پر عوامی نمائندوں سے بلکل یتیم نظر آ رہا ہے۔ جب  بیوروکریسی کی طرف سے یہ نوٹیفکیشن جاری  ہوا  تو مکران کے ایک نمائندے نے ذرا سی تاخیر کئے بغیر ملازمین کوفوری طور پر واپس بحال کرایا۔

کیچ  تربت اب بھی یتیمی کا رونا اس لیے رو رہا ہے کہ  تربت میں اسوقت 114کے قریب ٹیچرز  تاحال بحال نہیں ہوئے، اگر انکو اس بنیاد پر معطل کر دیا گیا کہ کہ وہ ڈیوٹی نہیں دے رہے تو یہ اصول و قانون صرف اُن لوگوں کے لیے کیوں ہے کہ جن کا کسی  بااَثر خاندان سے تعلق نہیں ہے۔۔؟؟؟

 بات اگر خاصری یا غیر حاضری کی ہے تو  سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی اطلاعات کے مطابق متعلقہ محکمے سے تعلق رکھنے والے بااَثر افسران کے بندے کیوں اس زد میں نہیں آئے ۔۔؟؟ انکے خلاف کیوں کارروائی نہیں  کی جاسکتی ؟ 

اسوقت سب سے بڑا المیہ  یہ ہے کہ  ڈسٹرکٹ تربت کے چار صوبائی نمائندے بشمول وزیر و مشیر اور ایک ایم این اے اسمبلی میں موجود ہیں مگر انکے مسائل پر کوئی خاطر خواہ بات سامنے نہیں آ رہی۔  تین مہینے سے متاثرین در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں مگر کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہے۔

کالم کا ہر گز مطلب یہ نہیں کہ جو ٹیچرز ڈیوٹی نہیں دیتےجنکی لاپروائی کی وجہ سے معاشرہ اندھیرے اور جہالت کی طرف بڑھ رہا ہے، ان کے خلاف کارروائی نہ کی جائے تاہم اسوقت بات حق و سچائی اور اصول و ضوابط کی ہے جو یکساں نظر نہیں آ رہی، طبقاتی فرق ہے ،اُس طبقاتی فرق کے خلاف  آواز اُٹھانا بے آوازوں کی آواز بننا  ہماری ذمے داری ہے۔ اصول ایسے بنائیں تاکہ اس پہ کوئی اثرانداز نہ ہو، اگر کوئی اپنے بنائے ہوئے اصولوں کی خود پاسداری نہیں کرسکتا تو یہ توقع دوسروں سے رکھنا  بے معنی ہے۔

اسوقت بلکل اسی طرح کی صورتحال متاثرین اساتذہ کی ہے۔ نہ ہم غیرحاضر ٹیچرز کی طرف داری کرتے ہیں اور ناہی حکومت کے کمزور بیانیے کی، بات میکانزم اور اصولوں کی ہے۔ اس وقت حکومت اور انتظامیہ کا موقف کمزور اور جانبدار ہے، جب کہ ٹیچرز مظلوم ہیں۔