بلوچستان: رواں ہفتے کا احوال

بلوچستان: رواں ہفتے کا احوال
ادارتی نوٹ: بلوچستان سے متعلق خبروں کو عموماً قومی سطح کے اخبارات میں اس طرح واضح جگہ نہیں دی جاتی جیسے پاکستان کے اس سب سے بڑے اور انتہائی اہمیت کے حامل صوبے کو دی جانی چاہیے؛ نیا دور نے فیصلہ کیا ہے کہ بلوچستان کے مقامی اخباروں سے چنیدہ خبروں کو ہفتہ وار شائع کیا جائے تاکہ قارئین تک ان خبروں کی رسائی ممکن ہو سکے۔ زیر نظر خبریں اسی سلسلے کی پہلی کڑی ہیں۔




لگتا ہے جوڈیشل مارشل لاء نافذ ہوچکا ہے، سابق وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو


وزیراعلیٰ کسی کی مدد کرے تو صوابدیدی فنڈ بند، ٹرانسفر پوسٹنگ کا اختیار واپس لے لیا جاتاہے، بلوچستان ہائیکورٹ کے حالیہ فیصلوں پر اظہار خیال

سابق وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے کہا ہے کہ وہ حکومتی کارکردگی سے مطمئن نہیں، کیونکہ سسٹم نے انہیں وہ کام نہیں کرنے دیا جیسا وہ چاہتے تھے۔ موجودہ سسٹم کسی کو کام کرنے نہیں دیتا۔ ہمارے افسران صبح سے دوپہر تک عدالت میں ہوتے تھے جس کے بعد دفتری اوقات کار ہی ختم ہوجاتے تھے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ بلوچستان میں جوڈیشل مارشل لاء نافذ ہے۔ حکومت سے تمام تر اختیارات لیے جارہے ہیں۔ اگر وزیراعلی کسی حلقے کی پسماندگی دور کرنے کے لئے سکیم دیتا ہے یا کھلی کچہری میں کسی کی مدد کرتا ہے تو اس کے صوابدیدی فنڈز بند کر دیے جاتے ہیں۔ وزیراعلیٰ حکومت کا چیف ایگزیکٹو ہے، اس سے ٹرانسفر پوسٹنگ کا اختیار واپس لینا وفاق کو دوبارہ اختیارات منتقل کرنے کے مترادف ہے۔ ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانچ سالوں میں کئی بار ایسے مواقع آئے جہاں مارشل لاء لگنے کا خدشہ تھا لیکن میں پاک فوج کا شکر گزار ہوں جنہوں نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسا نہیں کیا۔ سول حکومتیں اپنے معاملات درست رکھیں تو فوج کو کوئی ضرورت نہیں ہوگی کہ وہ حکومتی معاملات میں دخل اندازی کرے۔






اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کرنے پر ہمیں اگر غدار کہا جاتا ہے تو قبول ہے، بلوچستان عوامی پارٹی


بلوچستان عوامی پارٹی کے بانی سعید ہاشمی، مرکزی جنرل سیکرٹری منظور کاکڑ و دیگر رہنماؤں نے کہا ہے کہ ہم نے غلامی کی زنجیریں توڑ دی ہیں اور صوبے کی سطح پر ایسی جماعت بنائی جو بلوچستان کے حقوق کے لئے جدوجہد کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں اپنے اداروں پر فخر ہے جنہوں نے ہمیشہ دہشتگردوں کے خلاف آپریشن کر کے کامیابی حاصل کی۔ ہم نے کبھی بھارت، اسرائیل اور دیگر ممالک کی افواج کی حمایت نہیں کی بلکہ ان کی مخالفت کی۔ اپنی فوج کی ہمیشہ حمایت کی۔ اس حوالے سے ہمیں غدار کہا جاتا ہے تو وہ بھی ہمیں قبول ہے۔ بی اے پی کے رہنماوں نے کہا کہ قوم پرست جماعت نے پشتونوں کے نام پر اقتدار اپنے خاندان تک محدود رکھا۔ ایسے شخص کو صوبے کا گورنر بنایا جس کا مذکورہ پارٹی سے تعلق ہی نہ تھا۔ قوم پرست جماعت نے کوئٹہ میں 28 ڈیم بنانے کے لئے 50 ارب روپے حاصل کئے۔ یہ فنڈز کہاں خرچ ہوئے کسی کو معلوم نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم فیڈریشن کو کمزور نہیں بلکہ مضبوط بنائیں گے لیکن فیڈریشن کو بھی بلوچستان کے حقوق دینے ہوں گے۔






حلقہ بندیوں سے متعلق نظرثانی فیصلوں کے خلاف کوئٹہ میں سیاسی جماعتوں کا احتجاج


کوئٹہ کی حلقہ بندیاں دوبارہ کرانا اقوام کو دست و گریباں کرنے کی سازش قرار

بلوچستان نیشنل پارٹی اور ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی کے زیر اہتمام حلقہ بندیوں سے متعلق نظرثانی فیصلوں کے خلاف کوئٹہ پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا۔ احتجاجی مظاہرے سے بی این پی اور ایچ ڈی پی کے رہنماؤں نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ میں حلقہ بندیوں کو دوبارہ کرانے کا مقصد سیاسی تنگ نظر جماعت کی ایما پر برادر اقوام کو دست و گریباں کرنے کی سازش ہے۔ رہنماؤں نے کہا کہ کوئٹہ میں تمام اقوام کو ان کی آبادی کے تناسب سے صوبائی اور قومی اسمبلی کی نشستیں ملیں۔ کوئٹہ میں تعصب، تنگ نظری کی سیاست نہ کی جائے۔ اقوام کی جتنی نشستیں بنتی ہیں انہیں دی جائیں۔ انہوں نے کہا کہ حلقہ بندیوں کی آڑ میں کوئٹہ میں انتخابات کے موقع پر سازشیں کی جارہی ہیں۔ ایک بار پھر 2013 کی طرح ہمارے مینڈیٹ پر شب خون مارنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عدالتوں کو قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ہمارا آئینی حق ہے کہ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ سے رجوع کریں۔ مقررین نے مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن کے بنائے گئے حلقوں کو بحال کیا جائے۔






بلوچستان ہیلتھ پالیسی 2018 تا 2030 کا اعلان


2025تک آدھی آبادی صحت کی تمام سہولیات سے مستفید ہوگی، سیکرٹری صحت بلوچستان

سیکرٹری صحت بلوچستان صالح محمد ناصر نے بلوچستان ہیلتھ پالیسی 2018 سے 2030 کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ پورے ملک میں سب سے پہلے ہمارے صوبے نے یہ ہیلتھ پالیسی بنائی ہے۔ 2020 تک اتائی ڈاکٹروں کا خاتمہ اور 2025 تک صحت کا بجٹ 7 فیصد سے بڑھا کر 15 فیصد کردیا جائے گا۔ سیکرٹری صحت نے بتایا کہ صوبے میں 36 ہزار ملازمین میں سے 28 ہزار ڈاکٹرز، جنرل کیڈر، ینگ ڈاکٹرز سپیشلسٹ اور پیرامیڈیکل سٹاف کے ساتھ تقریباً 7 ہزار کے قریب نرسز کا سٹاف بھی موجود ہے۔ ہیلتھ پالیسی سے متعلق صحافیوں کو بریفنگ کے دوران سیکرٹری صحت نے کہا کہ ہیلتھ پالیسی ترتیب دے کر اس کی باقاعدہ منظوری کابینہ نے دی۔ دسمبر 2018 تک پالیسی کے مطابق تمام شعبوں کے پی سی ون تیار کر کے اس کی منظوری ہو جائے گی اور 2025 تک ہیلتھ سروسز کی مکمل طور پر ڈلیوری ہوجائے گی۔ صالح محمد ناصر نے بتایا کہ بلوچستان میں نوتعمیرشدہ تین کالجز کو پی ایم ڈی سی تسلیم نہیں کر رہی۔ مکران اور تربت میڈیکل کالجز میں تمام فیکلٹی مکمل کر لی گئی ہے اور اس کی پی ایم ڈی سی میں رجسٹریشن کے لئے ریفرنسز کے زریعے رابطہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹرز کی تعیناتی سمیت ہسپتالوں کی حالت زار اور دیگر معاملات کو اس ہیلتھ پالیسی میں رکھا گیا ہے۔ پالیسی کے تحت لازمی سروسز میں ہڑتال نہیں، سابقہ بلوچستان حکومت نے آئینی مدت پوری ہونے سے ایک روز قبل بلوچستان ہیلتھ پالیسی کو کابینہ سے منظور کروا لیا تھا۔






کوئٹہ میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ 12 گھنٹے تک پہنچ گئی


بجلی بندش کے خلاف احتجاجی مظاہرے، توڑ پھوڑ، 2 افراد زخمی

رمضان المبارک میں شدید گرمی میں بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ کے خلاف کوئٹہ کے مختلف علاقوں میں عوام سراپا احتجاج بن گئے۔ شہر کے بیشتر علاقوں میں سڑکیں بند کر کے کیسکو حکام کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔ مظاہرے کے دوران سرکاری گاڑی کی توڑ پھوڑ کی گئی۔ ہنگامہ آرائی کے دوران 2 مظاہرین زخمی ہو گئے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ ماہ صیام میں بھی کیسکو حکام لوڈ شیڈنگ پر قابو پانے میں بری طرح ناکام ہو کر رہ گئے ہیں۔ گرمی کی شدت میں اضافے کے بعد کیسکو نے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ میں اضافہ کر کے 12 گھنٹے تک پہنچا دی۔ طویل لوڈ شیڈنگ کے باعث کاروباری سرگرمیاں بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ دوسری طرف کیسکو افسران اور اہلکاروں کے ناروا رویے کے باعث لوگوں میں اشتعال بڑھتا جا رہا ہے۔ کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان کے دیگر اضلاع میں 16 سے 18 گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ جاری ہے جبکہ دیہی علاقوں میں 22 گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے۔ ادھر کیسکو حکام اب بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں بجلی کی سپلائی معمول کے مطابق جاری ہے۔