Get Alerts

مودی سرکار کی بھارت اتر پردیش میں ”مدنی مسجد“ کو مسمار کرنے کی ناپاک کوشش

اس سے قبل اتر پردیش میں ہی ایک مسجد کے سروے کے دوران پولیس نے مسجد کی بے حرمتی کی جس کے خلاف مسلمانوں نے احتجاج کیا اور پولیس نے ان پر سیدھی گولیاں برسائیں جس سے 4 مسلمان نوجوان شہید اور درجنوں زخمی ہوئے تھے

مودی سرکار کی بھارت اتر پردیش میں ”مدنی مسجد“ کو مسمار کرنے کی ناپاک کوشش

تحریر :محمد ذیشان اشرف 

اس سے قبل اتر پردیش میں ہی ایک مسجد کے سروے کے دوران پولیس نے مسجد کی بے حرمتی کی جس کے خلاف مسلمانوں نے احتجاج کیا اور پولیس نے ان پر سیدھی گولیاں برسائیں جس سے 4 مسلمان نوجوان شہید اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔

بھارتی ریاست اتر پردیش کے علاقے ہٹا میں سرکاری اداروں کی جانب سے ایک اور مسجد کا سروے کیا جا رہا ہے اور علاقے کے مسلم مکینوں کو اس پر تشویش ہے۔ حال ہی میں تعمیر کی گئی ”مدنی مسجد“ کا انتہا پسند ہندو ”بھگوا تنظیموں“ کی شکایت پر کہ ”مدنی مسجد“ سرکاری زمین پر قبضہ کر کے تعمیر کی گئی ہے سروے شروع کر دیا گیا ہے۔ سروے کے وقت پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔

محکمہ مال کی ٹیم کی پیمائش کے بعد مسجد کمیٹی کے مطالبے کے باوجود ضلعی انتظامیہ نے تاحال سروے کے نتائج فراہم نہیں کیے۔ ریاست کے مسم شہریوں کے مطابق انہیں رپورٹ میں رد و بدل کا خدشہ ہے۔

مسجد کے نگران کے مطابق مسلم کمیونٹی نے مسجد کی تعمیر کے لئے یہ زمین 15 سال قبل خریدی تھی۔ مسجد سرکاری اراضی پر بنائی گئی ہے اور نہ ہی یہاں کوئی تجاوزات ہیں۔ جتنی زمین کے کاغذات ہیں اتنی زمین پر ہی مسجد بنائی گئی۔

کچھ دن قبل اسی ریاست کے علاقے سنبھل میں بھی ایک تاریخی مسجد کو سروے کے بہانے مندر ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس دوران پولیس نے مسجد کی بے حرمتی کی جس پر مسلم کمیونٹی نے شدید احتجاج کیا اور پولیس نے مظاہرین پر سیدھی گولیاں برسائیں جس میں 4 نوجوان شہید اور درجن سے زائد زخمی ہوئے تھے۔

وزیر اعظم مودی کے گذشتہ 10 سالہ دورِ اقتدار میں بھارت میں کئی مساجد کو شہید کیا جا چکا ہے، اس سے قبل 1992 میں ایودھیا میں بابری مسجد کی مسماری بھی آج تک برصغیر بھر کے مسلمانوں کے ذہنوں پر کندہ ہے۔ 6 دسمبر 1992 کو ہندو انتہا پسندوں نے بابری مسجد کو شہید کر دیا تھا۔ یہ مسجد ایک تاریخی اور مذہبی حیثیت رکھتی تھی۔

کئی بھارتی ریاستی حکومتیں، خاص طور پر اتر پردیش اور گجرات میں، مساجد اور مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو غیر قانونی قرار دے کر شہید کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

بھارت میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 14 فیصد ہے، مگر ان کی سیاسی اور سماجی حیثیت کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کی حکومت کے تحت مسلمانوں کے خلاف مختلف قوانین نافذ کیے گئے، جن میں سی اے اے (سیٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ) اور این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز) سرِفہرست ہیں۔

مسلمانوں کو بھارت میں جو چیلنجز درپیش ہیں ان میں سب سے اہم ان کی مذہبی آزادی، سماجی و اقتصادی حقوق اور سیاسی حیثیت کی حفاظت ہے۔ لیکن بھارتی حکومت مسلسل اقلیتوں کے حقوق سے روگردانی کرتی آ رہی ہے۔ بھارت کا آئین تمام شہریوں کے لئے برابری کی ضمانت دیتا ہے لیکن اس نام نہاد سیکولر جمہوریت میں مسلمانوں کی حالتِ زار بد سے بدتر ہوتی ہی چلی جا رہی ہے۔

بھارت نے 1984میں اپنی ہی فوج سے بھارتی پنجاب امرتسر میں ”آپریشن بلیو سٹار“ آپریشن کیا تھا۔ اس آپریشن میں بھارتی آرمی نے ہزاروں کی تعداد میں سکھوں کو قتل کیا۔ یہاں تک کہ چند سال کے بچوں کو بھی نہ بخشا۔ اب بھارت ایسا سلوک مسلمانوں سے کر رہا ہے۔ بھارت کی ان پالیسیوں کی مخالفت میں بھارت کے اندر اور باہر مسلمانوں نے احتجاج کیا ہے اور اس کے نتیجے میں عالمی سطح پر بھارت کی اصل تصویر پوری دنیا کے سامنے آ رہی ہے۔