Get Alerts

شاہیر نیازی، پاکستان کا آئن سٹائن

لاہور سے تعلق رکھنے والا ایک لڑکا جس کی عمر جب 16 سال تھی تو اس نے(الیکٹرک کومب)پر تحقیقی مقالہ لکھ کر آئزک نیوٹن کا ریکارڈ توڑدیا

شاہیر نیازی، پاکستان کا آئن سٹائن

لاہور سے تعلق رکھنے والا ایک لڑکا جس کی عمر جب 16 سال تھی تو اس نے(الیکٹرک کومب)پر تحقیقی مقالہ لکھ کر   آئزک نیوٹن کا ریکارڈ  توڑدیا ۔ اسے دنیا آج شاہیر نیازی کے نام سے جانتی ہے، فزکس میں گریجویشن کرنے کے بعد اس نے کسی یورپی ملک جانےکو ترجیح نہیں دی بلکہ پاکستان میں  رہتے ہوئے اپنی تحقیق جاری رکھنے کا ارادہ کیا اورآجکل  بلوچستان میں خلائی تحقیق کیلئے قائم ایک ادارے میں بطور ریسرچ سائنٹسٹ کام کررہا ہے ۔اس کا رجحان آسٹرونومی (عام زبان میں جسے فلکیات کا علم کہا جاتا ہے ) کے پوشیدہ رازوں سے پردہ اٹھانا ہےاور پاکستان کا یہ روشن چہرہ پر عزم ہے کہ ایک دن وہ اپنی تحقیق کے ذریعے نوبل انعام ایک بار پھر پاکستان لائے گا ۔ عالمی جریدے(اوپن رال سائنس جنرل) میں شائع مضمون نے شاہیر نیازی کو عالمی میڈیا کی کی سرخیوں میں نمایاں کردیا۔2018میں  فوربزکی شائع ہونے والی30انڈر30 کی لسٹ میں بھی شامل ہوچکے ہیں ۔۔۔پاکستان میں سائنس کا مستقبل کیا ہے اورکیا پاکستان واقعی سائنسی ترقی کیلئے تیار ہےاور شاہیر نیازی کے مستقبل میں اپنی تحقیق کے حوالے سے کیا منصوبے ہیں انہی موضوعات پرنیادور  قارئین کیلئے شاہیر نیازی سےایک خصوصی انٹرویو  لیا گیا  ۔شاہیر نیازی نے اپنی مصروفیات کے حوالے سے نیادور کو  بتاتے ہوئے کہا کہ”حال ہی میں اسلام آبادمیں قائم انسٹی ٹیوٹ آف سپیس ٹیکنالوجی سے فزکس میں گریجویشن مکمل کرنے کے بعد میں  بلوچستان میں  قائم خلا ئی  تحقیق کے ادارےمیں بطور ریسرچ سائنٹسٹ کام کررہاہوں، جہاں میرا بنیادی کام خلاء ، گلیکسی، سیاروں  اور فلکیات پر تحقیق ہے (تقویٰ سپیس اوبزرورٹری )

وہ واحد ادارہ ہے جس کے پاس طاقتور ترین 3 ٹیلی سکوپ نصب ہیں جن سے تصویریں لے کر ان پر تحقیق کرنا میرا کام ہے۔ فلکیات پر تحقیق میرا بنیادی کام ہے جسے  جاری رکھے ہوئے ہوں ۔“اس کے علاوہ شاہیر نیازی  کو  اپنے دیگر ہم عصر وں کے مقابلے میں جو چیز منفرد بناتی ہے وہ تحقیقی مقالہ ہے جو شاہیر نے صرف 16 سال کی عمر میں لکھا کر نیوٹن کا ریکارڈ توڑا، (الیکٹرک ہنی کومب) پر تحقیقی مقالہ سائنس کی ترقی میں کتنی اہمیت کا حامل ہے اس بارے میں انھوں نے

بتایا کہ ”اسے سادہ الفاظ میں اسی طرح سمجھا سکوں گا کہ جب آپ بجلی کے ہائی وولٹیج تیل کی سطح پر اپلایی کرتے ہیں تو اس عمل سے ایک پیٹرن بننا شروع ہو جاتا ہے بالکل اسی طرح جیسے شہد کی مکھی کے چھتے کو جب کاٹیں تو اس کی شکل بھی بالکل ایسی ہی بنتی ہے جیسی (الیکٹرک ہنی کومب) کی بنتی ہے۔ میری تحقیق نے اس بارے میں جدید پہلو دریافت کیے اور (الیکٹرک ہنی کومب )کو مزید آگے بڑھایا ۔ اس کے علاوہ تھرمل امیجنگ کو  پہلی دفعہ آگے بڑھانے میں مدد ملی“۔ اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں نوجوانوں کے پاس نہ تو وسائل ہیں اور نہ ایسے ادارے جہاں وہ عالمی معیار کی تحقیق کر سکیں، اسی لئے وہ دلبرداشتہ ہو کر پاکستان چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، شاہیر نیازی اس بارے میں کہتے ہیں کہ ” یقیناً پاکستان میں ایسے ادارے موجود ہیں ،جہاں یونیورسٹی کی سطح پر طلبا کو اپنے تحقیقی مقالوں کیلئے تحقیق کے دوران پروفیسرز کی جانب سے کافی مواقع میسر آتے ہیں، مثال کے طور پر اسلام آباد میں قائم نیشنل سینٹر آف فزکس میں پارٹیکلز فزکس پر کافی معیاری تحقیقی کام جاری ہے، اسی طرح جی سی یونیورسٹی میں نیو کلیر فزکس پر تحقیق جاری ہے، سائنسی دنیا میں اسے  بہت کم لوگ جانتے ہیں ،ان دونوں اداروں میں پارٹیکل ایکسلیٹرز بھی  موجود ہیں ۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان اداروں کی پبلسٹی نہ ہونے کی وجہ سے سٹوڈنٹس کو ان اداروں میں وسائل سے فائدہ اٹھانے میں مشکلات پیش آتی ہیں ۔  تحریک انصاف کی حکومت کے دوران جب فواد چوہدری نے سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت سنبھالی تو اس وقت بھی ان سے وسائل کی فراہمی کا وعدہ کیا گیا “۔ کیا کبھی ان وعدوں کی تکمیل ہوپائی تو شہیر نیازی اس بارے بتاتے ہوئے کہا کہ ۔”حکومت کی طرف سے تو کوئی خاص  پذیرائی نہیں کی گئی ، مگر ہاں، عالمی ادارے فوربز 30انڈر 30 کی طرف سے ضرور انعام دیا گیا  پرائیویٹ اداروں کی جانب سے بھی ایوارڈز دئیے دئیے گئے۔“شاہیر نیازی جیسے نوجوان سائنٹسٹ پاکستان کا روشن چہرہ ہیں ، قومی سطح پر ایسے ٹیلنٹ کو ختم  ہونے سے بچانا ہےاس نوجوان سائنٹسٹ کےاپنے  مستقبل کو لے کر  کیا ارادے ہیں یا کیا شاہیر نیازی بھی دیگر نوجوانوں کی طرح بیرون ملک جانے کا ارادہ رکھتے ہیں ،شاہیر نیازی کا اس بارے  کہنا ہےکہ ،”مستقبل میں تو ضرور اپنی تحقیق جاری رکھوں گا ، جہاں بھی بہتر مواقعے ملیں گےپھر چاہے وہ پاکستان میں ہوں یا پاکستان سے باہر ، میری شناخت تو پاکستان ہی رہے گی“۔

پاکستان  اگرچہ ترقی پذیر  ملک ہے لیکن ماضی میں اس مٹی نے ڈاکٹر عبدالسلام (نوبل انعام یافتہ )، ڈاکٹر عبدالقدیر خان (ایٹمی سائنسدان ) جیسے بڑے دماغ  پیدا کئے“۔ موجودہ دور میں پاکستان میں سائنس کامستقبل  کیا ہے اور کیا پاکستان میں سائنسی موضوعات پر تحقیق کیلئے وسائل موجود بھی  ہیں؟ تو نوجوان سائنٹسٹ شاہیر نیازی کہتے ہیں کہ ،”پاکستان میں وسائل ضرور موجود ہیں لیکن   پہلی ترجیح فوجی نوعیت کے پراجیکٹس ہیں اس کا زیادہ تعلق پاکستان کی قومی سطح پر ترجیحات سے بھی ہے۔ باقی پھرسائنس کی جتنی فیلڈز ہیں  اس کے لئے یونیورسٹی پر منحصر ہے کہ ایچ ای سی یونیورسٹیوں  کو کتنی گرانٹس دیتا ہے۔ مگر وہ پراجیکٹ کی نوعیت پر ہوتا ہےکہ آیا اس کے لیے وسائل بھی دستیاب ہیں یا نہیں “۔ پاکستان میں یہ حقیقت ہے کہ اداروں کی زبوں حالی کا سفر تیزی سے جاری ہے ، سائنس کے میدان میں پاکستان کہاں کھڑا ہے اور کیا جدید سائنسی تحقیق کیلئے نئے اداروں کی تشکیل وقت کی ضرورت نہیں ، تاکہ  جدید دور میں سائنس کے میدان میں ہونیوالی ترقی سے فائدہ اٹھایا جاسکے؟ تو شاہیر نیازی کا کہنا ہے کہ ،”تحقیق کے نئے ادارے بنا ئے جارہے ہیں مگر یہ عمل بہت سست روی کا شکار ہے، اب سپارکو نے بھی خلاء پر تحقیق  کی طرف توجہ دینا شروع کردی ہے حال ہی میں گلگت بلتستان میں ماحولیاتی سائنس   کی تحقیق کیلئے  ایک سینٹر بنایا گیا ہے۔فی الحال پاکستان میں فلکیات پر تحقیق کا رجحان نہیں ہے، تاہم  فلکیات کو لے کر  طلبا ء میں دلچسپی ضرور ہے لیکن  نئےاداروں کا فقدان ہے، پاکستان کو اپنی ترجیحات  طے کرنا   ہوں  گی تاکہ نئے ادارے بنائیں جاسکیں“۔ ڈاکٹر عبدالسلام پاکستان کے پہلے سائنسدان تھے جنہیں1979 میں  نوبل انعام سے نوازا گیا کیااب  پاکستان اس مرتبہ شاہیر نیازی سے توقع رکھ سکتا ہے کہ یہ نوجوان سا ئنٹسٹ پھر نوبل انعام پاکستان  لے کر  آئیں گے؟ شاہیر نیازی کو اپنی صلاحیتوں پر اعتماد  ہے وہ کہتے ہیں کہ ،”اس سوال کا جواب اس بات پر منحصر ہے کہ اگر میں اس فیلڈ میں اپنی تحقیق کو جاری رکھوں اور کوئی گرائونڈ بریکنگ  تحقیق کرسکوں مگر اس کیلئے کسی ادارے کیساتھ مشترکہ طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے جس کی بنیاد پر ہی  نوبل انعام  دیا جاتا ہے، ذاتی حیثیت میں کچھ نہیں کرسکتا  اور اگر پاکستانی  قوم کی دعائیں ساتھ رہیں  تو انشاء اللہ ضرور نوبل انعام لانے کی کوشش کروں گا۔

ارسلان سید گذشتہ 8 سالوں کے دوران میڈیا کے کئی بڑے اداروں میں بطور پروڈیوسر کرنٹ افئیرز ذمہ داریاں انجام دے چکے ہیں۔ صحافتی اصولوں کی پاسداری، جمہوریت اور عوامی صحت، انسانی حقوق ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں۔