پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے منگل کی شب قوم سے خطاب میں ملکی قرضوں میں اضافے کی وجوہات جاننے کے لیے تحقیقاتی کمیشن بنانے کا اعلان کیا ہے۔
وزیراعظم عمران خان کا یہ خطاب پاکستان کے قومی نشریاتی ادارے پر نشر کیا گیا۔ اس خطاب کو نہ صرف تین بار وقت تبدیلی کے بعد رات گئے نشر کیا گیا بلکہ اس میں کئی تکنیکی مسائل بھی رہے۔ وزیراعظم کی تقریر کے دوران دو مرتبہ آڈیو غائب ہوئی اور سکرین بھی بلیک آؤٹ ہو گئی جس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث چھڑ گئی۔
کسی نے قومی نشریاتی ادارے کی کارکردگی پر سوال اٹھائے تو کسی نے کہا کہ وزیراعظم کی تقریر کو سنسر کیا گیا ہے۔ جبکہ بڑی تعداد میں صحافیوں اور اینکرز نے وزیراعظم کے میڈیا مشیروں اور معاونین کی کارکردگی پر بھی سوال اٹھائے۔
حکومت نے کہا تھا کہ پی ٹی وی کے آلات جدید نہیں ہیں اسی وجہ سے اس کی ریکارڈنگ پرائیوٹ کمپنی سے کروائیں گے۔
پی ٹی وی کے ایک اہلکار کے مطابق پی ٹی وی سات منٹ سے زیادہ دورانیے کی ویڈیو سسٹم میں ڈال کر چلانے کی حامل نہیں ہے کیونکہ ویڈیوز کا دورانیہ جب زیادہ ہوجاتا ہے تو سسٹم پر بوجھ پڑتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر اعظم کا خطاب پی ٹی وی نے ریکارڈ نہیں کیا، بلکہ ایک نجی کمپنی کی خدمات حاصل کی گئی تھیں ۔
اہلکار کے مطابق خطاب کا وقت تو وہی تھا تاہم نجی کمپنی کی ویڈیو میں ایڈیٹنگ کی گنجائش نظر آئی جس پر ایک بار پھر ویڈیوز کو ایڈیٹ کیا گیا جس پر خطاب کے نشر ہونے میں زیادہ وقت لگا، تاہم اس کے باوجود ایڈیٹنگ کی گنجائش باقی تھی تاہم خطاب کو 11 بجے چلایا گیا۔
اہلکار کے مطابق 37 منٹ کی ایچ ڈی تقریر ایک میموری کارڈ میں محفوظ تھی, جب اس کو چلایا گیا تو فائل کا سائز زیادہ ہونے کی وجہ سےسسٹم کریش کرگیا۔ سسٹم کریش ہونے کی وجہ سے خطاب کی آواز غائب ہوگئی اور اس کو دوبارہ چلایا گیا۔
دوسری جانب وزارت اطلاعات کے حکام نے پی ٹی وی کے اس عملے کو طلب کیا ہے جو وزیر اعظم کی تقریر کے دوران ڈیوٹی پر تھا۔
ماہرین کے مطابق وزیر اعظم کی تقریر کی ویڈیو ہائی ڈیفینیشن تھی، یہ ایک نئی جہت ہو سکتی تھی تاہم اس خطاب کے دوران ویڈیو فریمنگ اور کمیرہ اینگلنگ کے مسائل بھی سامنے آئے جبکہ پوسٹ پروڈکشن نے تو ہر چیز کا حشر نشر ہی کر دیا۔ بہتر یہ رہتا کہ خطاب کو ریکارڈ کرنے سے قبل ہر چیز کو طے کیا جاتا ۔ یہ بات بھی عیاں ہوئی کہ پی ٹی وی جیسے تاریخ ورثے کے حامل ادارے کو اپنے آلات اور ٹیکنالوجی میں جدت لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے حکومت کو توجہ دیناہو گی۔