نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبرسےآگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جہاں عمران خان کے حق میں جاتا ہے وہاں سے آئین کے بغیر گزر جایا جاتا ہے اور جب عمران خان کے فائدے میں ہوتا ہے تو آئین یاد آ جاتا ہے۔ مسلم لیگ ن نے پہلے جو پرویز مشرف کے ساتھ کیا اس کے نتیجے میں وقار سیٹھ، اکرم شیخ اور نواز شریف کا حال دیکھ لیا ہے تو اب جنرل فیض کے خلاف کوئی شکایت بھیجنے کا بھی انہیں فائدے سے زیادہ نقصان نظر آتا ہے۔ عمران خان کا کوئی اصول نہیں ہے، ہو سکتا ہے وہ واپس آ کر جنرل فیض کو منہ نہ لگائے اور جنرل باجوہ کو اپنا سکیورٹی ایڈوائز بنا لے۔
ضیغم خان نے کہا کہ آئین کے پچاسویں سال میں دو سیاسی جماعتوں نے ایک سال کے اندر دو مرتبہ آئین کو توڑا۔ انتظامیہ اپنی ذمہ داری سے چھپنے کے لئے پارلیمنٹ کے پیچھے چھپ رہی ہے۔ عدلیہ نے پچھلے چند دنوں میں پارلیمانی پروسیس میں مداخلت کی، عدلیہ نے پارلیمان کو ربر سٹمپ سمجھ لیا ہے۔ اس وقت ہم ایسی صورت حال میں پہنچ رہے ہیں جس میں جوڈیشل مارشل لاء جیسی صورت حال ہے۔ ایک بنچ نے انتظامیہ کو بھی اوورٹیک کر لیا ہے اور پارلیمنٹ کو بھی۔
انہوں نے کہا کہ عدالتی ایکٹوازم کی ایک وجہ مسلم لیگ ن اور عدلیہ کا گٹھ جوڑ بھی ہے۔ اٹھارہویں ترمیم میں اصلاحات تجویز کی گئیں مگر افتخار چودھری نے وہ اصلاحات رد کر دیں اور تب نواز شریف افتخار چودھری کے سنتری بن کر ان کے پیچھے کھڑے تھے۔ ریفارمز کے وقت ن لیگ سودے بازیاں کر لیتی ہے۔
مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ قانون اور آئین کی حکمرانی کے بجائے ہمارے ہاں قانون اور آئین کے ذریعے حکمرانی کی روایت زیادہ مضبوط ہے۔ انتخابات سے متعلق موجودہ تنازعے نے پاکستان کے وفاق کے لئے خطرات پیدا کر دیے ہیں۔
پروگرام کے میزبان رضا رومی تھے۔ 'خبرسےآگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔