سماجی یت جب بگڑتی ہے تو وہ سب سے پہلے اپنے اہل دانش پر حملہ آور ہوتی ہے اپنے ادبیوں کے خلاف برسربیکار ہو جاتی ہے کیونکہ کسی ملک کا ادیب چاہے وہ شاعر ہو یا فکشن نگار وہ ییت متدرہ کے لہے قابل قبول نہیں ہوتا سماج اس سے اس لہے خوفزدہ ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی تخلیقات کے ذریعے عوام کو انکی اصل شکل دکھاتا ہے ۔وہ چہرہ جو سماج نے لپیا پوتی کے ذریعے چھپا رکھا ہے ، اور ایک چہرے پر دوسرا چہرہ چڑھا رکھا ہے فکشن نگار اپنے قلم نشتر سے لپیا پوتی کا خول اتار پھنک دیتا ہے ، بقول گریٹ سعادت حسن منٹو میری تحریروں میں کوہی بُرائی نہیں ہے جو نقص آپکو میرے افسانوں میں نطر آتا ہے درحقیت درحقیت وہ سماج کا اپنا نقص ہے ۔ عریانی اور فحاشی یہ وہ آزمائے ہوئے ٹوٹکے ہیں جو ہر عہد کے اس فکشن نگار پر آزمائے گئے جو سچ کا داعی تھا ، جو قلم کمان کے ذریعے سماجی کھوکھلے پن کو عیاں کر رہا تھا ، آزاد مہدی اس عہد کا فکشن نگار ہے حق پرست ہے جو بھی سماجی نا انصافی دیکھتا ہے من وعن اپنی تخلیقات میں بیان کر دیتا ہے ، معاشرے کا مکرہ چہرہ جو لپیا پوتی کے اندرون خانے میں پنہاں آزاد مہدی کے ماہر نشتر نگار کی طرح اس کا پردہ چاک کر دیتا ہے۔
پیرو ناول نہیں آزاد مہدی کی ذہنی اولاد ہے جس کو اس نے ذہنی طور پر جنم دے کا سپرد قرطاس کیا ، لاہور کے ادیب شاعر جن کے ساتھ راقم نے 18 سال گزارے وہ صرف حلقہ ارباب ذوق میں مذمتی قرارداد تک محدد رہے انجمن ترقی پسند مصنفین جس کے اجلاسوں میں آزاد مہدی اور میں سالوں تک ساتھ بیٹھے رہے وہ بھی خاموش ہے ، شاہدرہ کے داستان گو کا قلم اب کیا لکھے گا جس کی تخلیق کو تلف کر دیا جائے ندر آتش کر دیا جاسے وہ تو خود ایک بھولا بسرا افسانہ بن جاتا ہے۔