Get Alerts

سماجی المیہ یا ذہنی انتشار ؟

حال ہی میں اس کا نیا ناول پیرو شائع ہوا تو اس ناول کو ادبی حلقوں میں خوب سراہا گیا ادبی جریدوں اور اخبارات میں مضامین لکھے گئے ،تقربیات منعقد ہوئیں ،ستائش کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک شاہدرہ کے داستان گو آزاد مہدی کے گھر پر حملہ ہوگیا

سماجی المیہ یا ذہنی انتشار ؟

سماجی یت جب بگڑتی ہے تو وہ سب سے پہلے اپنے اہل دانش پر حملہ آور ہوتی ہے اپنے ادبیوں کے خلاف برسربیکار ہو جاتی ہے کیونکہ کسی ملک کا ادیب چاہے وہ شاعر ہو یا فکشن نگار وہ ییت متدرہ کے لہے قابل قبول نہیں ہوتا سماج اس سے اس لہے خوفزدہ ہو جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی تخلیقات کے ذریعے عوام کو انکی اصل شکل دکھاتا ہے ۔وہ چہرہ جو سماج نے لپیا پوتی کے ذریعے چھپا رکھا ہے ، اور ایک چہرے پر دوسرا چہرہ چڑھا رکھا ہے فکشن نگار اپنے قلم نشتر سے لپیا پوتی کا خول اتار پھنک دیتا ہے ، بقول گریٹ سعادت حسن منٹو میری تحریروں میں کوہی بُرائی  نہیں ہے جو نقص آپکو میرے افسانوں میں نطر آتا ہے درحقیت درحقیت وہ سماج کا اپنا نقص ہے ۔ عریانی اور فحاشی یہ وہ آزمائے ہوئے ٹوٹکے ہیں جو ہر عہد کے اس فکشن نگار پر آزمائے گئے جو سچ کا داعی تھا ، جو قلم کمان کے ذریعے سماجی کھوکھلے پن کو عیاں کر رہا تھا ، آزاد مہدی اس عہد کا فکشن نگار ہے حق پرست ہے جو بھی سماجی نا  انصافی دیکھتا ہے من وعن اپنی تخلیقات  میں بیان کر دیتا ہے ، معاشرے کا مکرہ چہرہ جو لپیا پوتی کے اندرون خانے میں پنہاں آزاد مہدی کے ماہر نشتر نگار کی طرح اس کا پردہ چاک کر دیتا ہے۔

 اسکے ناول ، دالال ، اس مسافر خانے میں ، یا ایک زندگی  ہوں سب میں آزاد مہدی نے حقیت نگاری ہی کی ہے حال ہی میں اس کا نیا ناول  پیرو شائع  ہوا تو اس ناول کو ادبی  حلقوں میں خوب سراہا گیا ادبی جریدوں اور اخبارات میں مضامین لکھے گئے ،تقربیات منعقد  ہویں ،ستائش کا سلسلہ جاری تھا کہ اچانک شاہدرہ کے داستان گو آزاد مہدی کے  گھر پر حملہ ہوگیا ، آزاد مہدی کی شریک حیات اور بیٹی کو جان بچا کر بھاگنا پڑا شاہدرہ کا داستان گو اپنے  بیٹے کے ساتھ پولیس کی حفاطتی تحویل میں چلا گیا مشتعل ہجوم نے اسکے گھر میں توڑ پھوڑ کی ناول پیرو کی کاپیاں ندرآتش کیں ، آزاد مہدی کے خاندان کو جان کے لالے پڑ گئے پولیس نے آزاد مہدی سے معافی نامہ لکھوایا اور اخبارات میں شائع کروایا ، آزاد مہدی نے ہجوم کے نمائندوں سے معافی مانگی اور ناول پیرو کی 20 کاپیاں ندر آتش کیں  اور باقی تمام کاپیاں  تلف کرنے کا وعدہ کیا ، مجھے یقین ہے اس دن کے بعد شاہدرہ کا داستان گو کی تخلیقی  موت ہو چکی ہے وہ بظا ہر دنیا کے سامنے جی رہا ہو گا وہ اس بات کو برداشت کر جاتا کہ مشعل ہجوم نے اس کے گھر جا کر ناول جلایا مگر یہ کیسے برداشت کرے گا کہ جان بچانے کے لئے اپنے ہاتھوں اپنا ناول جلانا پڑا ۔

 پیرو ناول نہیں آزاد مہدی کی ذہنی اولاد ہے جس کو اس نے ذہنی  طور پر  جنم دے کا سپرد قرطاس کیا ، لاہور کے ادیب شاعر جن کے ساتھ راقم نے 18 سال گزارے  وہ صرف حلقہ ارباب ذوق میں مذمتی قرارداد تک محدد رہے  انجمن ترقی پسند مصنفین جس کے اجلاسوں میں  آزاد مہدی اور میں سالوں تک ساتھ بیٹھے رہے وہ بھی خاموش ہے ، شاہدرہ کے داستان گو کا قلم اب کیا لکھے گا جس کی تخلیق کو تلف کر دیا جائے ندر آتش کر دیا جاسے وہ تو خود ایک بھولا بسرا افسانہ بن جاتا ہے۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔