پڑھے لکھے طبقے کا المیہ

پڑھے لکھے طبقے کا المیہ
وطن عزیز میں علم اور عالم کی ناقدری عروج پر ہے۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں عزت و تکریم حاصل کرنے کے لئے علم کے بجائے دولت اور رتبے کو ترجیح دی جاتی ہے۔ بچپن ميں جب کبھی پڑھائی سے اکتا کر کھیلنے کودنے کا دل کرتا تھا تو بڑوں سے یہ شعر سننے کو ملتا تھا۔

پڑھو گے لکھو گے بنو گے نواب
کھیلو گے کودو گے ہو گے خراب

کچے ذہن تھے اور ماحول بھی دیہاتی تھا۔ سہولتیں بھی نہ ہونے کے برابر تھیں۔ انٹرنیٹ، میڈیا اور اخبارات بھي بہت کم تھے۔ محدود سی سوچ تھی۔ سادہ سا دور تھا۔ جو ملا اسی پر صبر و شکر کر لیا۔ نہ زیادہ کی خواہش اور نہ دور کی سوچ۔ معلومات کا بڑا ذریعہ اپنے بڑے بزرگ اور انکی کہاوتیں ہی ہوا کرتی تھيں۔ ان کہاوتوں میں ہمیں سچائی اور حقیقت کا احساس ہوتا تھا۔

ان کہاوتوں کے سائے تلے اور پڑھ لکھ کے نواب بننے کے خواب دیکھتے ہمارے روز و شب گزرنے لگے۔ وقت بے لگام گھوڑے کی طرح آگے بڑھتا رہا۔ سائنسی ترقی کے ثمرات بھی ہم تک پہنچنا شروع ہو گئے۔ گھر ميں پہلے ریڈیو، پھر ٹی وی آیا۔ اخبارات بھی آنے لگے۔ الغرض دماغ اور دنیا کھلنا شروع ہو گئی۔ اور پھر دل پر بجلیاں گرنا شروع ہو گئيں، جب کہاوتوں اور حقيقت کا فرق آشکار ہونا شروع ہوا۔

قارئين، یہ ہمارے ملک کے تیس برس سے اوپر کے لگ بھگ ہر شخص کی کہانی ہے۔ بچپن کے خوابوں کی عملی زندگی میں الٹی تعبیر واقعتاً ایک تلخ حقیقت ہے۔

آج کے دور میں اگر دیکھیں تو، معذرت کے ساتھ کچھ یوں لگتا ہے کہ

پڑھو گے لکھو گے ہو گے خراب
کھیلو گے کودو گے بنو گے نواب

پڑھ لکھ کر ڈگرياں تھامے اور نوکریوں کی تلاش میں مارے مارے پھرتے بےروزگار نوجوان دیکھیں اور دوسری طرف ان پڑھ کھلاڑی، شوبز کے ستارے، سیاستدان اور دنیا کے تمام مزے لوٹتی ہوئی اشرافيہ تو دل و دماغ کی عجیب سی کیفیت ہو جاتی ہے۔ آج عالم کی بے توقیری اور جاہل کی شان و شوکت کے عملی نمونے عام اور بغیر ڈھونڈے دیکھنے کو ملتے ہیں۔

قارئین، ممالک کی ترقی و خوشحالی کے اہداف حاصل کرنے کے عمل میں اہل اور قابل افراد کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں صاف اور شفاف طریقہ کار کے ذریعے قابل اور اہل افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے اور میرٹ کو ہر حال میں مقدم رکھا جاتا ہے۔ ان کے یہاں سفارش اور رشوت کا تصور نہیں پایا جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شعبے اور محکمے میں میرٹ کے مطابق منتخب شدہ اہل افراد ہی دکھائی دیتے ہيں جو اپنی بھرپور صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر قومی ترقی میں بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔

وطن عزیز کی اخلاقی، معاشی اوراقتصادی تنزلی کی ایک اہم وجہ میرٹ کی پامالی بھی ہے۔ اقربا پروری، سفارش اور رشوت کا دور دورہ ہے۔ پڑھے لکھے اور قابل لوگ ڈگریاں تھامے مارے مارے پھرتے ہیں جبکہ نااہل اور سفارشی افراد ہر جگہ براجمان ہیں۔ ہمارے موجودہ نظام نے غریب، ضروتمند، محنتی اور اہل افراد کا جینا دوبھر کر رکھا ہے۔ بلکہ سچ تو یہ ہے کہ قانون اور قاعدے بنے ہی عام لوگوں کے لئے ہیں جبکہ خواص کے لئے راستے نکال لیے جاتے ہيں۔

ستم ظریفی کی انتہا دیکھیے کہ میڈیا، قانون اور عوام کی نظروں سے بچ بچا کر سائنسی بنیادوں پر بھی میرٹ کی پامالی کی جاتی ہے۔ بظاہر بڑے صاف اور شفاف طریقہ کار سے شارٹ لسٹنگ، ٹیسٹ اور انٹرویوز کا عمل کیا جاتا ہے مگر آخر ميں زیادہ ترانتخاب اقربا پروری، سفارش یا رشوت کی بنیاد پر ہی ہوتا ہے۔ بڑے بڑے مقابلے اور ٹیسٹنگ سروسز کے امتحانات بھی شک وشبے سے بالاتر نہیں اور ان میں ہونے والی بےقاعدگیاں آئے روز اخبارات اور میڈیا کی زینت بنتی رہتی ہيں۔

میرٹ کو یقینی بنانے کے لئے بھرتیوں کے عمل کے لئے اہل، قابل اور ایماندار افراد کو ذمہ داریاں تفویض کرنی چاہئیں۔ آن لائن نظام کو فروغ دینا چاہیے۔ ایک آسامی کے لئے سب امیدواروں سے ایک جیسا ٹیسٹ اور انٹرویو ہونا چاہيے نہ کہ عام آدمی سے سخت و مشکل اور سفارشی سے آسان سوالات۔ سارا طریقہ کار خفیہ رکھنے کے بجائے اوپن ہونا چاہیے۔ انٹرویوز کی ریکارڈنگ بھی ہونی چاہیے۔ ٹیسٹ اور انٹرويوز کی ریکارڈنگ ہر کسی کی پہنچ میں ہونی چاہیے تاکہ صرف اہل افراد ہی آگے آ سکیں اور میرٹ کو یقینی بنایا جا سکے۔

محترم قارئين، ترقی یافتہ قوموں کی تاریخ اٹھا کر ديکھیں تو ان کی ترقی میں علم اور قلم کا نمایاں کردار نظر آتا ہے۔ تاریک اور روشن مستقبل میں سے کس کا انتخاب کرنا ہے یہ فیصلہ میں اپنی قوم اور ارباب اختیار پر چھوڑتا ہوں۔

مصنف پیشے سے انجینئر ہیں اور ساتھ ایم بی اے بھی کر رکھا ہے- لکھنے سے جنون کی حد تگ شغف ہے اور عرصہ دراز سے مختلف جرائد اور ویب سائٹس میں لکھ رہے ہیں