بدقسمتی سے ہمارا نظام عدل امیر و غریب اور طاقتور و کمزور کو مساوی، فوری اور شفاف انصاف فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے۔ فیصلوں تک پہنچنے میں سالہا سال لگ جاتے ہيں۔ غریب اور کمزور حصول انصاف کی دہائیاں دیتے رہتے ہیں جبکہ انصاف کے ترازو کے پلڑے کا جھکاؤ طاقتور اور صاحب حیثیت کی طرف محسوس ہوتا ہے۔
اصلاح احوال کے لئے ضروری ہے کہ زير التوا لاکھوں مقدمات کے فيصلے ہنگامی بنيادوں پر انصاف کے تمام تقاضے پورے کر کے ہونے چاہئيں۔ فريقين کو صفائی اور اپنے دفاع کے بھرپور اور مساوی مواقع ملنے چاہئيں۔
غريب اور مالی استعداد نہ رکھنے والوں کو رياست کی طرف سے بہترين وکيل کی سہولت ملنی چاہيے۔ جھوٹی شہادتوں اور ثبوتوں کا سلسلہ ختم ہونا چاہيے۔ نظام عدل کو سائنسی اور آن لائن بنيادوں پر استوار کرنا چاہيے۔ عدالتی عمل کو خفيہ نہيں رکھنا چاہيے۔ عدالتوں میں تعیناتياں غير جانبدار اور آزاد کميشن یا طريقہ کار کے ذريعے ہونی چاہئیں۔ ایسے بے داغ ماضی اور کردار کے حامل افراد تعينات ہونے چاہئیں جن پر کوئی بھی انگلی نہ اٹھا سکے۔
پسند و ناپسند کے بجائے آئين اور قانون کے مطابق فيصلے ہونے چاہئيں۔ فيصلے کے خلاف اپيل کا پورا حق ملنا چاہيے۔ انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے لئے اپيل کی سماعت ابتدائی فيصلہ کرنے والے کے بجائے غير جانبدار کمیشن ميں ہونی چاہيے۔
مجرم اور قصور وار کو آئين اور قانون کے مطابق کڑی اور عبرتناک سزائيں ملنی چاہئيں تاکہ ديگر جرائم پيشہ عناصر کی حوصلہ شکنی ہو۔ دہشت گردوں ملک دشمن عناصر کے مقدمات فوجی عدالتوں کی طرز پر چلنے چاہئيں۔
قارئين، وطن عزيز کو خوشحال اور امن کا گہوارہ بنانے کے لئے ہر ممکن اقدامات کرنا وقت اور حالات کی اشد ضرورت ہے۔ عوام کو یکساں، فوری اور شفاف انصاف فراہم کرنا حکومت وقت کی ترجیحات کا حصہ ہونا چاہیے۔