شاہانہ پروٹوکول میں شامل گاڑیوں کی تعداد بھی دیدنی ہوتی ہے اور پولیس کی زیادہ تر نفری بھی عوام کے جان و مال کی حفاظت کی بجائے شاہانہ پروٹوکول کی ڈیوٹی پر مامور رہتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پروٹوکول کی زبانی کلامی مخالفت کرنے والے سیاستدان بھی پروٹوکول کے مزے لیتے دکھائی دیتے ہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں لاکھ برائیاں سہی مگر یہ بات ماننی پڑے گی کہ وہاں غير ضروری اور بلاجواز پروٹوکول نہیں ہوتا اور کسی بڑے سے بڑے حکمران یا افسر کی وجہ سے نظام زندگی اور معمولات پر فرق نہيں پڑتا۔ سگنل کھلے رہتے ہیں اور امیر و غریب قانون پر یکساں عمل کرتے ہيں۔ وہاں کے حکمرانوں کی عاجزی و انکساری کے واقعات آئے روز اخبارات اور میڈیا کی زینت بنتے رہتے ہيں۔ ہماری اشرافیہ اغیار کی برائیاں اپنانے میں تو پیش پیش رہتی ہے مگر ان کی اچھائیوں سے چشم پوشی کر لیتی ہے۔
قارئین، سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں غریب کا خون سستا اور امیر کا ارزاں ہے۔ غریب کے اس احساس کی وجہ سے جنم لينے والی ممکنہ نفرت کا سدباب کرنا بے حد ضروری ہے۔ کيوں نہیں ایسے اقدامات کیے جاتے کہ غریـب اور امیر کے جان، مال، عزت و آبرو کو مساوی تحفظ ملے اور وی آئی پی پروٹوکول کی جگہ امیر و غریب کو برابر اور سب سے بڑھ کر انسانیت کو پروٹوکول حاصل ہو۔ ساتھ ہی عوام کا بھی یہ فرض ہے کہ عوامی نمائندے منتحب کرتے وقت امیدوار کی عوام دوستی اور پروٹوکول سے نفرت جیسے ریکارڈ اور ماضی کو بھی ذہن نشین رکھيں۔