جب گزشتہ روز عمران خان لاہور ہائی کورٹ میں پیش یو گئے تھے، وہاں پنجاب حکومت اور تحریک انصاف کے وکلا کے درمیان طے ہو گیا تھا کہ اگلے روز عمران اسلام آباد عدالت میں پیش ہو جائیں گے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیشن جج کا وارنٹ بھی منسوخ کر دیا تھا اور اگلے روز اپنے بیان کے عین مطابق عمران خان زمان پارک سے اسلام آباد جانے کے لیے نکل پڑے۔ اس کے بعد زمان پارک پر یہ آپریشن بلاجواز تھا۔ یہ ریاستی دہشت گردی کی ایک بدترین مثال ہے۔ اس کے بہت خوفناک نتائج برآمد ہوں گے۔
عامر میر جو نگران وزیر اطلاعات ہیں انہوں نے خیبر پختونخوا سے آئے تحریک انصاف کے کارکنوں کے بارے میں جو الفاظ کہے ہیں وہ قابل مذمت ہیں۔ پنجاب کے ایک وزیر کی جانب سے دوسرے صوبے خیبر پختونخوا کے سیاسی کارکنوں کو دہشت گرد قرار دینا قابل مذمت اور شرم ناک ہے۔ پاکستان میں انسانی حقوق کا واویلا کرنے والوں کا زمان پارک آپریشن پر خاموش تماشائی بنے رہنا ایک تشویش ناک عمل ہے۔ اس سے پہلے نام نہاد انسانی حقوق کے علم بردار ارشد شریف کی شہادت اور عمران ریاض، شاہد اسلم، جمیل فاروقی، اعظم سواتی اور شہباز گل کی گرفتاری پر بھی خاموش رہے تھے۔ یوں ان نام نہاد انسانی حقوق کے علمبرداروں کا بُغضِ عمران خان نمایاں ہو چکا ہے۔ آج کے بعد ان کی کسی دوسری بات کو سنجیدگی سے نہیں لیا جائے گا۔
اس ساری صورت حال میں اب انصاف کی آخری امید پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ ہی رہ جاتی ہے کیونکہ مکس اچار حکمران اتحاد اور ان کے سہولت کار کھل کر سامنے آ چکے ییں۔ وہ جان چکے ہیں کہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے الیکشن میں ان کی شکست نوشتہ دیوار ہے۔ وہ کسی قیمت پر بھی الیکشن نہیں کروانا چاہتے اور کھل کر سپریم کورٹ کے فیصلے کو ہوا میں اڑا رہے ہیں۔ اگر اب بھی سپریم کورٹ نے اپنے احکامات پر عمل درآمد نہ کرایا اور تحریک انصاف کے قائد عمران خان کو ان کی انتخابی مہم نہ چلانے دی تو وطن عزیز میں انارکی پھیل جائے گی اور آج کے بعد قانون اور آئین پاکستان طاقتور سیاسی افراد اور ان کے سہولت کاروں کے گھر کی لونڈی بن کر رہ جائے گا۔