پر یا بسا آرزو کہ خاک شد۔ شہباز شریف ناصرف فردِ جرم سے بچ گئے بلکہ انہیں قریب 15 دن کی چھوٹ بھی مل گئی۔ وہ بھی اس بنیاد پر کہ جو کاغذات فراہم کیے گئے تھے، ان کی فوٹو کاپیاں ٹھیک نہیں تھیں اور ان کے وکلا یہ پڑھنے سے قاصر تھے۔ اگر اس واقعے سے کچھ ثابت ہوا ہے تو وہ محض یہ ہے کہ شہباز شریف کو گرفتار کرنا اب اتنا آسان نہیں رہا۔ وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ وہ دن بھی تھے یقیناً کہ جب شہباز شریف کو صاف پانی کیس میں تفتیش کے لئے بلا کر آشیانہ کیس میں دھر لیا گیا تھا۔ اب لیکن اب حالات مختلف ہیں۔ اب فوٹو کاپیاں ٹھیک نہ ہوں تو 15 دن کا وقت مل جاتا ہے۔ اب اس سے ارکان اسمبلی کیا نتیجہ اخذ کریں گے؟ اگر وہ گرفتاری کی صورت میں عمران خان کی مضبوطی کا تاثر لینے والے تھے تو اب شہباز شریف کی ڈیل کا تاثر لے رہے ہوں گے۔
شہباز شریف کے خلاف کیس کیا ہے، اس کے لئے زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ فواد چودھری اور شہباز گل صاحب کی لمبی لمبی پریس کانفرنسز میں آپ کو حکومتی ورژن مل جائے گا اور لاہور ہائی کورٹ نے جس بنیاد پر شہباز شریف کی اسی کیس میں ضمانت منظور کی تھی، وہ آپ کو لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں مل جائے گی۔ لاہور ہائی کورٹ کا کہنا محض اتنا تھا کہ جن لوگوں کے نام کی ٹی ٹی ہیں، ان میں سے ایک سے بھی تفتیش نہیں ہوئی لیکن جس بندے کے نام کوئی ٹی ٹی موصول ہی نہیں ہوئی، اس کو سات مہینے سے جیل میں بند رکھا ہوا ہے۔
اب آ جائیے اس مقدمے میں اگلی تاریخ پڑنے کے سیاسی اثرات پر۔ مسلم لیگ ق کے کامل علی آغا نے مونس الٰہی کے اس بیان سے کہ ق لیگ عمران خان کے ساتھ ہے، ایک قدم پیچھے لیتے ہوئے کہا کہ مونس کا یہ بیان محض اس دن تک کے لئے تھا۔ یعنی وہ اسے review کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف اس فیصلے کے دن ہی ایم کیو ایم کی جانب سے بھی اعلان کر دیا گیا کہ وہ مزید وزارتیں نہیں لیں گے کیونکہ اس حکومت کا بوجھ وہ مزید نہیں اٹھا سکتے۔
ایسا نہیں کہ عمران خان صاحب کو یہ کرنا نہیں چاہیے تھا۔ یہ ٹھیک سیاسی داؤ تھا جس سے غیر جانبداری کے بارے میں شک و شبہ دور ہو سکتا تھا۔ اب وہ دور تو ہوا ہے لیکن اپوزیشن کے حق میں۔ آگے آگے دیکھیے، ہوتا ہے کیا!