گذشتہ کئی دن سے حکومت یہ تاثر دینے میں مصروف تھی کہ 18 فروری کو مسلم لیگ ن کے سربراہ شہباز شریف پر منی لانڈرنگ کیس میں فردِ جرم عائد کر دی جائے گی اور اس کے بعد ان کو کسی بھی دن ایف آئی اے تفتیش کے لئے وارنٹ لے کر گرفتار کر لے گی۔ پلان تو بہت اچھا تھا۔ اگر شہباز شریف گرفتار ہو جاتے تو مسلم لیگ ن کے اپنے ارکان میں بھی بے دلی پھیل جاتی اور اپوزیشن کے غبارے سے بھی ہوا نکل جاتی جو دعویٰ کر رہی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو چکی ہے اور عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آئے گی تو اس میں ہر حال میں اپوزیشن کو فتح ہی نصیب ہوگی۔ پچھلے چار سالوں میں ملک کے حالات کچھ اس انداز سے چلائے گئے ہیں کہ اب چاہے اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہو اور حکومت اپنے تئیں شہباز شریف کو گرفتار کروانے میں کامیاب ہو جائے، تاثر یہی بنتا کہ اسٹیبلشمنٹ تاحال عمران خان کی پشت پر ہے اور حکومتی ارکان میں جو خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے، اسے بھی وقتی ہی سہی کچھ ٹھہراؤ ضرور نصیب ہو جاتا۔
پر یا بسا آرزو کہ خاک شد۔ شہباز شریف ناصرف فردِ جرم سے بچ گئے بلکہ انہیں قریب 15 دن کی چھوٹ بھی مل گئی۔ وہ بھی اس بنیاد پر کہ جو کاغذات فراہم کیے گئے تھے، ان کی فوٹو کاپیاں ٹھیک نہیں تھیں اور ان کے وکلا یہ پڑھنے سے قاصر تھے۔ اگر اس واقعے سے کچھ ثابت ہوا ہے تو وہ محض یہ ہے کہ شہباز شریف کو گرفتار کرنا اب اتنا آسان نہیں رہا۔ وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔ وہ دن بھی تھے یقیناً کہ جب شہباز شریف کو صاف پانی کیس میں تفتیش کے لئے بلا کر آشیانہ کیس میں دھر لیا گیا تھا۔ اب لیکن اب حالات مختلف ہیں۔ اب فوٹو کاپیاں ٹھیک نہ ہوں تو 15 دن کا وقت مل جاتا ہے۔ اب اس سے ارکان اسمبلی کیا نتیجہ اخذ کریں گے؟ اگر وہ گرفتاری کی صورت میں عمران خان کی مضبوطی کا تاثر لینے والے تھے تو اب شہباز شریف کی ڈیل کا تاثر لے رہے ہوں گے۔
شہباز شریف کے خلاف کیس کیا ہے، اس کے لئے زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ فواد چودھری اور شہباز گل صاحب کی لمبی لمبی پریس کانفرنسز میں آپ کو حکومتی ورژن مل جائے گا اور لاہور ہائی کورٹ نے جس بنیاد پر شہباز شریف کی اسی کیس میں ضمانت منظور کی تھی، وہ آپ کو لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں مل جائے گی۔ لاہور ہائی کورٹ کا کہنا محض اتنا تھا کہ جن لوگوں کے نام کی ٹی ٹی ہیں، ان میں سے ایک سے بھی تفتیش نہیں ہوئی لیکن جس بندے کے نام کوئی ٹی ٹی موصول ہی نہیں ہوئی، اس کو سات مہینے سے جیل میں بند رکھا ہوا ہے۔
اب آ جائیے اس مقدمے میں اگلی تاریخ پڑنے کے سیاسی اثرات پر۔ مسلم لیگ ق کے کامل علی آغا نے مونس الٰہی کے اس بیان سے کہ ق لیگ عمران خان کے ساتھ ہے، ایک قدم پیچھے لیتے ہوئے کہا کہ مونس کا یہ بیان محض اس دن تک کے لئے تھا۔ یعنی وہ اسے review کر سکتے ہیں۔ دوسری طرف اس فیصلے کے دن ہی ایم کیو ایم کی جانب سے بھی اعلان کر دیا گیا کہ وہ مزید وزارتیں نہیں لیں گے کیونکہ اس حکومت کا بوجھ وہ مزید نہیں اٹھا سکتے۔
ایسا نہیں کہ عمران خان صاحب کو یہ کرنا نہیں چاہیے تھا۔ یہ ٹھیک سیاسی داؤ تھا جس سے غیر جانبداری کے بارے میں شک و شبہ دور ہو سکتا تھا۔ اب وہ دور تو ہوا ہے لیکن اپوزیشن کے حق میں۔ آگے آگے دیکھیے، ہوتا ہے کیا!