Get Alerts

وہ قبائلی رسم جس میں میاں بیوی ثالث کی موجودگی میں جنسی عمل سرانجام دیتے ہیں

اس قبائلی رسم میں واضح طور پر عورت کے جسم کی بے توقیری ہو رہی ہوتی ہے۔ الزام مرد پر ہونے کے باوجود سزا عورت کو اپنے جسم کو کسی دوسرے کے گھر جا کر دکھانے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ سب کچھ اس جدید دور میں ختم ہونا چاہیے۔

وہ قبائلی رسم جس میں میاں بیوی ثالث کی موجودگی میں جنسی عمل سرانجام دیتے ہیں

انسان کی اخلاقی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا پیداواری قوتوں کے درمیان کا رشتہ۔ جسم کا ڈھانپنا اور عورت کے جسم کو اپنی ملکیت سمجھنا بھی انہی پیداواری قوتوں سے جڑی ایک سوچ ہے۔ یہ سوچ معاشی طور پر ترقی یافتہ معاشروں میں کم اور غریب خطوں اور اقوام میں زیادہ نظر آتی ہے۔ ایک طرف، اگر عورت کی چادر سرک جائے تو اس کے بال نوچے جاتے ہیں، تو دوسری طرف اسے ایک ثالث کے سامنے ننگے ہو کر اپنے شوہر کی مردانگی کی صفائی دینی ہوتی ہے۔ اس طرح کی ایک رسم صدیوں سے ہمارے قبائلی علاقوں میں موجود ہے۔ جہاں جہاں قبائلی لوگ آباد ہیں وہاں وہاں یہ رسم پائی جاتی ہے جس میں زیادہ تر سندھ اور بلوچستان کے قبائلی علاقے شامل ہیں۔ جب کبھی کسی شادی شدہ مرد پر عورت کے ورثا کی طرف سے نا مردی (یعنی مردانگی کی کمی) کا الزام عائد ہوتا ہے، تو اس مسئلے کو ہمارے ہاں روایتی طریقوں سے حل کیا جاتا ہے۔

عورت کے ورثا عورت کے خاوند پر نا مردی کا الزام لگاتے ہیں جبکہ مرد اس الزام سے انکار کرتا ہے۔ اس کے بعد قبائلی فیصلہ کی کارروائی شروع ہوتی ہے، جس میں کوئی ایک فریق کسی مقامی وڈیرے یا قبیلے کے سردار کے پاس شکایت لے کر جاتا ہے۔ شکایت درج کرانے کے بعد سردار کے حکم کے ذریعے دوسرے فریق کو مقررہ تاریخ کو پیش ہونا ہوتا ہے۔ مقررہ روز فریقین اکٹھے ہو کر وڈیرے یا سردار کی کچہری میں اپنا اپنا مؤقف بیان کرتے ہیں۔

اس کے بعد فیصلہ کرنے والا کسی معتبر شخص کو بطور مشیر مقرر کرتا ہے۔ مشیر کسی جگہ، جیسے مکان یا جھونپڑی میں مرد اور عورت کو پیش کرنے کا کہتا ہے۔ مقررہ وقت کے اندر کمرے یا جھونپڑی میں خاوند اور بیوی کو اندر جا کر ہمبستری کرنے کا کہا جاتا ہے۔ عین ہمبستری کی حالت میں ثالث اپنی آنکھوں پر کپڑا رکھ کر اندر جا کر مرد کے عضو تناسل کو ہاتھ لگا کر چیک کرتا ہے۔ یہ عمل تقریباً دو تین بار دہرایا جاتا ہے۔ پھر باہر آ کر کچہری میں مشیر یہ اعلان کرتا ہے کہ شوہر مردانگی کے اوصاف سے محروم ہے یا مردانہ اوصاف کا مالک ہے۔ بعض اوقات فریقین میں سے کسی کے اعتراض پر مشیر سے قرآن پاک پر قسم لی جاتی ہے۔

اس قبائلی رسم میں واضح طور پر عورت کے جسم کی بے توقیری ہو رہی ہوتی ہے۔ الزام مرد پر ہونے کے باوجود سزا عورت کو اپنے جسم کو کسی دوسرے کے گھر جا کر دکھانے پر مجبور کرتی ہے۔ یہ سب کچھ اس جدید دور میں ختم ہونا چاہیے۔ حکومت کو اس کے خلاف ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔

عبدالغفار بگٹی کا تعلق بلوچستان میں ڈیرہ بگٹی سے ہے۔