Get Alerts

بلوچستان میں کتابیں پڑھنے کا رواج اور سیاسی تحریکیں

بلوچستان کی آبادی کا تقریباً آدھا حصہ بچوں پر مشتمل ہے جو کہ کل تعداد 73 لاکھ بنتی ہے، ان میں سے 30 لاکھ (41فیصد ) بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں، جو صوبے کے مستقبل کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے، صوبے میں 15,096 سکولز رجسٹرڈ ہیں، لیکن ان میں سے 22 فیصد (یعنی 3,321) مکمل طور پر بند پڑے ہیں، جبکہ 50 فیصد (یعنی 7,548) سکولز صرف ایک کمرے پر مشتمل ہیں، مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ 81فیصد (یعنی 12,228)سکولز صرف پرائمری سطح تک محدود ہیں، جس سے مڈل تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے

بلوچستان میں کتابیں پڑھنے کا رواج اور سیاسی تحریکیں

بلوچستان میں  کتابیں پڑھنے کے روجھان کا سیاسی تحریکوں سے گہرا تعلق ہے، بلوچ قوم نے اپنی تاریخ، ثقافت، اور حقوق کے بارے میں جاننے کے لیے کتابوں کو ایک اہم ذریعہ سمجھتی ہے۔ سیاسی طور پر مظلوم قوم ہونے کی وجہ سے ، کتابوں نے انہیں اپنی شناخت اور سیاسی جدوجہد کو سمجھنے میں مدد دی ہے۔ بلوچی زبان اور روایات کو زندہ رکھنے کی کوششوں نے مقامی ادب کو فروغ دیا ہے۔ مصنفین اور شاعروں نے بلوچی داستانوں، تاریخ، اور نظریات کو تحریری شکل دی ہے، جس سے لوگوں کو اپنی ثقافت سے جڑنے کا موقع ملا ہے۔

گوادر میں 2014 میں پہلا 2 روزہ کتاب میلہ منعقد ہوا، جس میں صرف ایک سٹال تھا اور ایک لاکھ روپے کی کتابیں فروخت ہوئیں یہ اس وقت ایک نیا ریکارڈ بنا تھا۔ اس کے بعد ہر سال 4 روزہ کتاب میلہ منعقد کیا جانے لگا۔ اس سال 28 لاکھ روپے کی کتابیں فروخت ہوئیں۔ اس ہفتے بلوچستان میں4 جگہوں پر کتاب میلے اور کتابوں کی اہمیت پر سیمینار منعقد ہوئے۔ بلوچستان میں کتاب میلے اور پڑھنے کا رواج عام ہوتا جا رہا ہے۔اس ہفتے کتاب دوستی کے حوالے سے ایک اور پیش رفت ہوئی ہے۔ 

ریڈرز کلب کارنر کا افتتاح ہوا ہے جس کا افتتاح ننھی گلوکارہ سیمک بلوچ نے کیا ۔

کتاب میلے کا سلسلہ 2011 میں شروع ہوا اور اس سے اگلے سال بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں کتابوں کے سٹال لگائے گئے۔ ہر جگہ مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت پبلشرز سے کتابیں  اٹھائیں اور اس کے بعد کتابوں نگرانی کی اور ان کو فروخت کیا ۔ یہ اس زمانے میں ایک نئی چیز تھی۔ بلوچستان جیسے تعلیمی طور پر پسماندہ صوبہ میں لوگ کتابوں کو خریدتے ہیں۔ اس سے پہلے سوائے کوئٹہ کے، اندرون بلوچستان میں ایسا کوئی رواج نہ تھا۔2 سالوں میں نوشکی، خاران، تربت، جعفرآباد، اوستا محمد، اور جیکب آباد میں سٹال لگائے گئے، اب تو ڈیرہ بگٹی جیسے پسماندہ ضلع میں ہر سال کتاب میلہ لگتا ہے ۔

بلوچ قوم نے کتابوں کو اپنی شناخت اور جدوجہد کا ذریعہ بنایا ہے۔ پچھلے ماہ بلوچ طلبہ کےسٹال پر حکومت کی جانب سے پابندی لگائی گئی اور طلبہ کو کتابوں سمیت جیل میں بند کردیا گیا جس کی تصویریں سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہوئیں۔  اس طرح لسبیلہ یونیورسٹی میں کتابوں پر پابندی لگائی گئی۔ ڈی جی خان میں بلوچ طلبہ کے سٹال کو حکومت پنجاب کے لوگ زبردستی اٹھا کر لے گئے ۔ انسانی فطرت میں یہ چیز موجود ہے کہ جس چیز سے دور رکھا جاتا ہے اس کے قریب جانے کی خواہش بڑھتی جاتی ہے ۔یہی بلوچ قوم کے ساتھ ہوا۔ اس ہفتے کوئٹہ میں کتاب کاروں نے سیمینار کا انعقاد کیا، جس کا مرکزی موضوع علم پر پابندی تھا۔

نصیر آباد ادبی میلہ منعقد ہوا ، جس کی قیادت معروف بلوچ ادیب پناہ بلوچ کر رہے تھے۔ جس میں پاکستان بھر سے لوگوں نے شرکت کی اور کئی ہزار کتابیں فروخت ہوئیں۔ یہ کمال پڑھے لکھے ایک فیصد  بلوچ نوجوان کا ہے، جو سالانہ کروڑوں روپے کی کتابیں خرید رہے ہیں۔

بلوچستان کے عوام کی کتابیں پڑھنے کے رجحان کو فروغ دینے والے عوامل میں سیاسی عمل پر قدغنین لگنا ہے ۔ بلوچ قوم نے کتابیں اور ادب کو مفاہمت کے   ذریعے کے طور پر استعمال شروع کیا ہے۔ اپنی تاریخ، جدوجہداور حقوق پر لکھی گئی کتابیں لوگوں میں یکجہتی اور بیداری پیدا کرتی ہیں، جس سے معاشرے کو ظلم کے خلاف لڑنے کی طاقت ملتی ہے۔

بلوچی زبان اور روایات کو بچانے کی کوششوں نے مقامی ادب کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔ مصنفین اور شاعروں نے سینا با سینا چلتی تاریخوں، داستانوں، اور سیاسی نظریات کو تحریری شکل دی ہے، جس سے لوگوں کو اپنی شناخت کو محفوظ رکھنے کے لیے کتابوں سے جڑنے کی ترغیب ملی ہے۔بلوچ شعراء کی کتابوں جیسے سیف الرحمنٰ مزاری،گل خان نصیر ،کریم بخش بگٹی ،مرید بھلیدی ،دلوش مسوری بگٹی ،سعید تبسم مزاری ،مبارک قاضی ،رفیق مغیری ،شاعر غفور لغاری ، جگھا بزدار، غلام قادر بزدار وغیرہ کی کتابیں فروخت ہوئیں اس کے علاؤہ قومی تحریکوں پر لکھی کتابیں  ،مارکس ازم وغیرہ کی کتابیں سب سے زیادہ فروخت ہوئی ہیں ۔

کتاب نے بلوچ نوجوان نسل کو ، سمارٹ فونز اور انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز تک رسائی کے بغیر ، آن لائن لائبریریاں اور بلوچ موضوعات پر ڈیجیٹل مواد نے سنسرشپ کے باجود بھی جغرافیائی رکاوٹوں کو عبور کرنے میں مدد دی ہے۔

مقامی این جی اوز اور بیرون ملک مقیم بلوچ اقوام نے تعلیمی پروگراموں، کتابوں کی تقسیم اور لائبریریوں کے لیے فنڈز فراہم کر کے خواندگی کو فروغ دیا ہے۔ ادب اور پمفلٹس کو سیاسی نظریات کو پھیلانے اور نوجوانوں کو متحرک کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

  مظلوم بلوچ قوم کتابوں کے ساتھ تعلق کو اپنی بقا ءسمجھتی ہے ، جبکہ ترقی یافتہ معاشروں میں اسے تفریح یا کیریئر کی ترقی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ مگر اس  کے ساتھ ایک برعکس چیز بھی موجود ہے 

جس کی  نشاندہی کئے  بغیر بات مکمل نہیں ہوتی وہ ہے بلوچستان حکومت کی تعلیمی کارکر  گی جو کہ  کچھ یوں ہے کہ  آبادی کا تقریباً آدھا حصہ بچوں پر مشتمل ہے جو کہ کل تعداد 73 لاکھ بنتی ہے۔ ان میں سے 30 لاکھ (41 فیصد ) بچے بنیادی تعلیم سے محروم ہیں، جو صوبے کے مستقبل کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکی ہے۔ صوبے میں 15,096 سکولز رجسٹرڈ ہیں، لیکن ان میں سے 22 فیصد (یعنی 3,321) مکمل طور پر بند پڑے ہیں، جبکہ 50 فیصد (یعنی 7,548) سکولز صرف ایک کمرے پر مشتمل ہیں۔ مزید تشویشناک بات یہ ہے کہ 81فیصد (یعنی 12,228) سکولز صرف پرائمری سطح تک محدود ہیں، جس سے مڈل تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔اس کے ساتھ معیارِ تعلیم بھی بری طرح متاثر ہے ۔

حکومتی ٹیسٹ کے مطابق، پرائمری سطح کے صرف 26 فیصد  بچے بنیادی جملے پڑھ سکتے ہیں، جن میں سے 30فیصد  ہی ریاضی کے بنیادی اصول (جیسے جمع/تفریق) سمجھتے ہیں۔ 4 لاکھ بچوں میں سے صرف 1.33 لاکھ تعلیمی معیار پر پورا اترتے ہیں۔ بدقسمتی سے، 70فیصد  بچے پرائمری کے بعد سکول چھوڑ دیتے ہیں اور ہائی سکول تک صرف 35 فیصد بچے پہنچ پاتے ہیں۔ ہائی سکولوں میں نقل کے رواج کی وجہ سے یونیورسٹی تک صرف ایک فیصد  بچے پہنچ پات ہیں ۔

بلوچستان کا تعلیمی بجٹ 87 ارب روپے ہے، لیکن ترقیاتی اخراجات صرف 12 ارب روپے ہیں۔ صوبے کی خواندگی کی شرح 27فیصد  ہے، لیکن 7,000 تعلیم یافتہ نوجوان ہر سال روزگار کی تلاش میں بلوچستان چھوڑ جاتے ہیں۔ گزشتہ 5 سالوں میں 31,607 افراد نقل مکانی کر چکے ہیں، کیونکہ صوبائی حکومت سالانہ صرف 20,000 نوکریاں فراہم کرتی ہے، جن میں سے 5,000 بھی تعلیم یافتہ افراد کے لیے نہیں ہیں۔

 بلوچستان میں تعلیمی نظام کی بحالی نہ صرف شدت پسندی کو ختم کر سکتی ہے، بلکہ روزگار کے مواقع، صحت کے مسائل اور معاشی عدم استحکام کو بھی حل کر سکتی ہے۔ اس کے لیے سکولز کی بحالی، اساتذہ کی تعیناتی میں توازن، لڑکیوں کی تعلیم پر توجہ اور روزگار کے منصوبوں کو تعلیم سے جوڑنا انتہائی ضروری ہے۔

صوبائی حکومت بجائے سٹال اُٹھا کر لے جانے کے اپنی پالیسی درست کرے  تو معاملات کافی حد تک درست ہوسکتے ہیں ۔

عبدالغفار بگٹی کا تعلق بلوچستان میں ڈیرہ بگٹی سے ہے۔