بہت سے مضامین ایسے ہیں کہ جن پر ہمیں کسی نہ کسی حد تک مطالعہ کرنا چاہئیے۔ گو کہ آج کل سوشل میڈیا کا دور ہے اور انٹرنیٹ پر بھی خاصا مواد موجود ہے مگر اس زمانے میں حیرت ہے کہ نئی نئی کتابیں بھی پابندی کے ساتھ شائع ہو رہی ہیں اور پڑھنے والے انہیں خرید بھی رہے ہیں اور پڑھ بھی رہے ہیں۔ یہ حال مشرق و مغرب کے تقریباً تمام ملکوں میں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کتابیں زندہ رہیں گی اور ان کے وجود کو ٹیکنالوجی سے کوئی خطرہ نہیں جیسا کہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے۔ نئے نئے پبلشر کتابوں کی اشاعت و طباعت کے میدان میں آ رہے ہیں اور شاید ہی کوئی برس ایسا ہو جب سینکڑوں کی تعداد میں کتابیں نہ چھپتی ہوں۔
پچھلے دنوں مجھے کئی نئی کتابوں کے مطالعے کا موقع ملا۔ ان کتابوں کا تعلق سیاست، ادب، سوانح عمری اور خودنوشت جیسے متنوع موضوعات سے ہے۔ خوشی کا پہلو یہ ہے کہ کتابوں کی طباعت و اشاعت کا معیار خاصا بہتر ہوا ہے اور یہ کتابیں جہاں معنوی طور پر فکر انگیزی اور گیرائی لیے ہوئے ہیں، وہاں صُوری اور نظری اعتبار سے بھی دیدہ زیب اور متاثر کن ہیں۔
ان کتابوں میں سب سے پہلی کتاب جس کا صحافتی دنیا میں بہت شہرہ ہے، ملک کے ممتاز صحافی، وقائع نگار اور حال کے کالم نگار جناب الطاف حسن قریشی کی ہے جو سابق مشرقی پاکستان اور حال کے بنگلہ دیش کی بابت ہے۔ عنوان بہت معنی خیز ہے: ' مشرقی پاکستان: ٹوٹا ہوا تارا' اس میں بزرگ صحافی الطاف حسن قریشی کے اُن تمام تجزیاتی مضامین کو یکجا کر دیا گیا ہے جو 1971 میں اردو ڈائجسٹ اور ہفت روزہ زندگی میں شائع ہوئے۔ یہ مشقت ایقان حسن قریشی نے اٹھائی جن کا نام نامی کتاب پر بطور مرتب کردہ کے موجود ہے۔
الطاف حسن قریشی کا ایک صحافتی امتیاز یہ ہے کہ وہ ملک کے پہلے بلکہ واحد صحافی ہیں جو اُس زمانے میں جب مشرقی پاکستان سیاسی انتشار و خلفشار سے گزر رہا تھا، لاہور سے سفر اختیار کر کے اس خطے میں گئے، وہاں کی سیاسی شخصیات سے ملاقاتیں کیں، مختلف طبقہ فکر کے اہم لوگوں سے تبادلہ خیال کیا، وہاں کی سیاسی اور لسانی صورتِ حال کا جائزہ لیا اور پھر ان معلومات کی روشنی میں ایسے فکر انگیز اور معلومات افزا تجزیے تحریر کیے کہ اگر اُس وقت کے اربابِ اقتدار ان تجزیوں میں بیان کی گئی صورتِ حال کو اہمیت دیتے اور اُن تجاویز سے فائدہ اٹھاتے جو قریشی صاحب نے اپنے مضامین میں نہایت دل سوزی کے ساتھ بیان کی تھیں، تو شاید قوم سقوطِ ڈھاکہ کے المیے سے بچ سکتی تھی۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا۔ اور اب جبکہ سقوط کے سانحے کو بھی ایک زمانہ گزر چکا ہے اور پلوں کے نیچے سے بہت سارا پانی گزر چکا ہے، ریکارڈ کی درستی اور ماضی سے سبق سیکھنے کے لیے یہ ضخیم کتاب مرتب کر کے اس امید کے ساتھ پیش کی گئی ہے کہ شاید ہم اپنی غلطیوں سے کچھ سبق سیکھ سکیں۔
یہ کتاب 1400 سے زائد صفحات پر مشتمل ہے اور اسے نہایت دیدہ زیب طباعت کے ساتھ علامہ عبدالستار عاصم نے قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل لاہور سے شائع کیا ہے۔ کاغذ کی مہنگائی کے اس دور میں پبلشر نے اس کتاب کو چھاپنے کا جو بیڑہ اٹھایا ہے، اس پہ اسے جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔ مرتبِ کتاب بھی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے نہایت عرق ریزی اور دیدہ دلیری سے پرانے شماروں سے ان قیمتی مضامین کو اکٹھا کیا اور نہایت سلیقے سے مرتب کر کے حال کے پڑھنے والوں اور مستقبل کے مؤرخوں کی نذر کر دیا۔
دوسری کتاب جو ان دنوں میرے زیر مطالعہ آئی وہ ڈاکٹر صائمہ ذیشان کا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے جو 'اردو میں اسلامی ادب کی تحریک کا فکری و ارتقائی مطالعہ' کے عنوان سے مکتبہ تعمیر انسانیت لاہور نے شائع کیا ہے۔ اردو کی ادبی دنیا میں مختلف وقتوں میں مختلف ادبی تحریکیں چلتی رہی ہیں۔ ترقی پسند تحریک، علامت نگاری کی تحریک، نئے ادب کی تحریک، نثری نظم کی تحریک۔ ان تحریکوں نے اردو ادب کے دامن کو موضوعات کے تنوع، نت نئے اسالیب اور فنی اظہار کے نئے نئے سانچوں سے مالا مال کیا ہے۔ اسلامی ادب کی تحریک بھی انہی میں شامل ہے۔
قیام پاکستان کے بعد ہمارے علم کے مطابق اسلامی ادب کی بابت سب سے پہلی آواز محمد حسن عسکری نے اٹھائی اور پھر ادیبوں اور شاعروں کی وہ کھیپ سامنے آئی جو ادب کو اسلامی اقدار سے آشنا کرنے کی خواہاں تھی۔ ہر چند کہ یہ تحریک ترقی پسند تحریک کی طرح مقبولیت سے ہم کنار تو نہ ہو سکی لیکن اس نے اردو ادب کو ایسے ادبا اور شعرا ضرور دیے جو ادب کو اخلاقی اقدار اور روحانی اظہار سے آشنا کرنا چاہتے تھے۔ ڈاکٹر صائمہ ذیشان وہ پہلی محققہ ہیں جنہوں نے اس موضوع پر نہایت دقت نظری اور گہرائی کے ساتھ تحقیق کی اور اس تحریک کی ادبی تاریخ مرتب کر کے ایک اہم خلا کو پُر کیا۔ ڈاکٹر معین الدین عقیل جو ان کے مقالے کے نگراں تھے، انہوں نے بھی گواہی دی ہے کہ ڈاکٹر صائمہ ذیشان تحقیق کی ایک نہایت سنجیدہ، باصلاحیت، مطالعے کی شائق اور اپنے علمی کام سے اٹوٹ طریقے سے وابستہ رہنے والی ایسی طالبہ ہیں جنہوں نے بحیثیت نگرانِ مقالہ انہیں متاثر کیا۔
کتاب کا مطالعہ بھی یہی بتاتا ہے کہ محققہ نے اپنے موضوع سے نہ صرف انصاف کیا ہے بلکہ نہایت اختصار و جامعیت کے ساتھ ایک وسیع موضوع کو اس طرح سے سمیٹا ہے کہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کا محاورہ صادق آتا ہے۔ کتاب کے پانچ ابواب ہیں اور تمام ابواب میں ایک تسلسل اور ربط اس خوش سلیقگی سے قائم کیا گیا ہے کہ موضوع کا حق ادا ہو گیا ہے۔ مجھے کہنے دیجیے کہ طلبہ اور اساتذہ میں پی ایچ ڈی کرنے کی جو دوڑ شروع ہوئی ہے اس میں دیکھنے میں یہی آیا ہے کہ ہمارے طلبہ مقالے کے لیے ایسے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں جن سے نہ علمی دنیا کو کوئی فائدہ پہنچتا ہے اور نہ سرمایۂ علم میں ہی کوئی اضافہ ہوتا ہے۔
تحقیقی مقالے میں جو ارتکازِ فکر اور اظہار و ابلاغ میں جو جامعیت اور گہرائی ہونی چاہئیے، مقالات بالعموم ان سے عاری ہوتے ہیں۔ اِدھر اُدھر سے جمع کی گئی معلومات سے مقالے کا حجم تو بڑھا دیا جاتا ہے لیکن استفادہ کرنے والے کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ ڈاکٹر صائمہ ذیشان کا یہ مقالہ ان عیوب سے نہ صرف مبرا ہے بلکہ بعد کے مقالہ نگاروں کے لیے ایک مثال بھی ہے کہ مقالہ لکھا جائے تو کس طرح، اور موضوع کو برتا جائے تو کیسے۔ 478 صفحات کے اس مقالے میں اردو کی ادبی تاریخ سمٹ آئی ہے جس کے لیے محققہ تحسین و تعریف کی مستحق ہیں۔ امید ہے کہ وہ پی ایچ ڈی کرنے اور اس کتاب کی اشاعت ہی کو اپنی آخری منزل نہ سمجھیں گی بلکہ نت نئے موضوعات کو اپنی تحقیق و تصنیف کا موضوع بناتی رہیں گی۔
ہم یہ بات اس لیے کہہ رہے ہیں کہ اکثر پی ایچ ڈی کرنے والے سند پانے کو ہی اپنی معراج سمجھتے ہیں حالانکہ پی ایچ ڈی تحقیق کی پہلی سیڑھی ہے جو محقق کو تحقیق اور مزید تحقیق کی دعوت دیتی ہے۔