'تربت یونیورسٹی میں ادبی اور سیاسی کتابیں لے جانے کی اجازت نہیں'

تربت یونیورسٹی کے وضاحتی بیان کے مطابق سوشل میڈیا پر کتابوں کے حوالے سے پابندی کا معاملہ حقائق پر مبنی نہیں۔ گذشتہ روز ایک سیاسی پارٹی کی طلبہ تنظیم نے یونیورسٹی کے اندر آؤٹ سائڈر طلبہ کی مدد سے ایک سٹال لگانے کی کوشش کی جس کے مقاصد صرف اور صرف سیاسی تھے۔

'تربت یونیورسٹی میں ادبی اور سیاسی کتابیں لے جانے کی اجازت نہیں'

گذشتہ روز یونیورسٹی آف تربت کے مین گیٹ کا ایک ویڈیو کلپ وائرل ہونے کے بعد تنازعہ پیدا ہو گیا۔ مذکورہ ویڈیو کلپ میں یونیورسٹی کے گیٹ پر سکیورٹی اہلکار کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ یونیورسٹی میں کتابیں لے جانے کی اجازت نہیں ہے۔

اس کے بعد کے ویڈیو کلپ میں دیکھا جا رہا ہے کہ سٹوڈنٹس کتابوں کو ہاتھوں میں اٹھا کر یونیورسٹی میں داخل ہونے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سکیورٹی اہلکاروں کے روکنے کے باوجود طلبہ اندر داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔

سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد مختلف سیاسی و سماجی، صحافی اور طلبہ تنظیموں کے رہنماؤں نے مذمت کرتے ہوئے یونیورسٹی کے اس عمل کو منفی قرار دیا۔

یونیورسٹی آف تربت کے سٹوڈنٹس اور بی ایس او پجار تربت زون کے ڈپٹی آرگنائزر یاسر بیبگر بلوچ نے بتایا کہ چونکہ گذشتہ روز ہمارا ایک سٹال لگنے والا تھا اور ہم نے اعلان بھی کیا تھا۔ ہم اپنے سٹال کیلئے کتابیں لے جا رہے تھے تو یونیورسٹی کے مین گیٹ کے سامنے ہمیں روکا گیا اور کہا گیا کہ تربت یونیورسٹی میں کتابیں لانے پر پابندی ہے۔ انہوں نے یونیورسٹی آف تربت کی جانب سے وضاحتی بیان کے متعلق کہا کہ یونیورسٹی کے وضاحتی بیان میں جو الزامات ہم پر لگائے گئے ہیں وہ سرا سر جھوٹ پر مبنی ہیں۔

اس سلسلے میں تربت سول سوسائٹی کے کنوینر گلزار دوست بلوچ نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ' تربت یونیورسٹی میں ادبی کتاب لے جانا منع ہے، لٹریچر کے ڈیپارٹمنٹ کے ہوتے ہوئے۔ سیاسی کتاب لے جانا منع ہے، پولیٹکل سائنس ڈیپارٹمنٹ کے ہوتے ہوئے۔ سٹوڈنٹ سیاست منع ہے، لیکچرر ایسوسی ایشن کے ہوتے ہوئے، اکیڈمک ایسوسی ایشن کے ہوتے ہوئے، ایمپلائی ایسوسی ایشن کے ہوتے ہوئے'۔

بی ایس او بچار کے مرکزی چیئرمین بوئیر صالح نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ 'بلوچستان کے تعلیمی اداروں کو کسی بھی صورت چھاؤنی نہیں بننے دیں گے۔ بندوق بردار کو ویلکم اور کتاب بردار کو دھکے دے کر تعلمی ادروں سے بے دخل کرنے والے ہوش کے ناخن لیں۔ ان کو پر امن سیاسی شعوری جدوجہد سے نشان عبرت بنائیں گے'۔

سٹوڈنس کے کتابیں لے جانے پر پابندی لگانا اور کتابوں سے دور رکھنا یونیورسٹی انتظامیہ کا منفی عمل ہے، یہ کہنا ہے بی ایس او پجار کے سابق چیئرمین نادر قدوس بلوچ کا۔ انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ یونیورسٹی کے اس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں اور اس رویہ کو قلم اور کتاب دشمنی سمجھتا ہوں۔ یونیورسٹی مادر علمی ہے جہاں سٹوڈنٹس علم کی جستجو اور علم حاصل کرنے کیلئے آتے ہیں۔ کتاب علم کا ایک ذریعہ ہے۔ دنیا میں کہیں پر بھی یونیورسٹی میں کتاب لے جانے پر پابندی نہیں ہے۔ یونیورسٹی میں بک سٹال لگانا ایک بہترین حکمت عملی ہے۔ سٹوڈنس کے کتابیں لے جانے پر پابندی لگانا یونیورسٹی انتظامیہ کا منفی عمل ہے۔

بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی کیاء بلوچ نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ 'کتابیں علم کا خزانہ ہوتی ہیں پر بلوچستان میں حکمران وفد یہ بات اکثر بھول جاتا ہے۔ تب ہی کبھی کتب فروشوں کی دُکانوں پر چھاپہ مار کر مقدمہ درج کیا جاتا ہے تو کبھی غیر نصابی کتابیں یونیورسٹی میں لے جانے پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے۔ کتابوں سے اتنا خوف کسے اور کیوں ہے؟'

نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میر جان محمد بلیدی نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ' بی ایس او کے جانثاروں کو سلام جو وقت کے فرعونوں کے خلاف بغاوت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تعجب ہے یونیورسٹیوں میں اسلحہ پر پابندی ہونی چاہئیے لیکن یہاں تو کتابوں پر بھی قدغن ہے'۔

تربت یونیورسٹی کی وضاحت

سوشل میڈیا پر زیر بحث آنے کے بعد یونیورسٹی آف تربت نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ یونیورسٹی آف تربت صوبہ بلوچستان کی دوسری بڑی جنرل یونیورسٹی ہے جہاں 5000 سے زائد طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ تربت یونیورسٹی میں دو بڑی لائبریریاں (سینٹرل لائبریری اور یونیورسٹی پبلک لائبریری) قائم کی گئی ہیں جہاں سٹوڈنٹس کی پڑھائی کے لیے ہزاروں کتابیں دستیاب ہیں۔ سوشل میڈیا پر کتابوں کے حوالے سے پابندی کا معاملہ حقائق پر مبنی نہیں اور حقیقت کے برعکس ہے۔ ہائیر ایجوکیشن کمیشن، مرکزی اور صوبائی گورنمنٹ کی پالیسی کے مطابق تربت یونیورسٹی کی واضح پالیسی ہے کہ کیمپس کے اندر کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں کی اجازت نہیں۔ گذشتہ روز ایک سیاسی پارٹی کی طلبہ تنظیم نے یونیورسٹی کے اندر آؤٹ سائڈر طلبہ کی مدد سے ایک سٹال لگانے کی کوشش کی جس کے مقاصد صرف اور صرف سیاسی تھے۔ اصل معاملہ اسی طلبہ تنظیم کے دو کارکنان کے امتحانات میں مسلسل فیل ہونے سے متعلق ہے۔ گذشتہ سمسٹرز کے امتحانات میں فیل ہونے کی وجہ سے اس طلبہ تنظیم سے جڑے دو طالب علموں سمیت 40 طلبہ و طالبات یونیورسٹی اکیڈمک قواعد و ضوابط کے مطابق ڈراپ آؤٹ ہو چکے ہیں جو مختلف ذرائع سے یونیورسٹی پر دباؤ ڈال کر دوبارہ اسی سمسٹر میں اپنی تعلیم جاری رکھنا چاہتے ہیں۔