طلبہ یونینز کی بحالی کے لئے نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کا لانگ مارچ کا اعلان

طلبہ یونینز کی بحالی کے لئے نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن کا لانگ مارچ کا اعلان
قانون قدرت ہے کہ کوئی شجر تب تک نہ تو سایہ دے سکتا ہے نہ ثمر جب تک اس کی جڑیں مضبوط نہ ہوں۔ پاکستان میں عوامی جمہوریت کے نہ پنپ سکنے کی ایک بڑی وجہ تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کا نہ ہونا ہے۔ تیسری دنیا کے چند ممالک کو چھوڑ کر دنیا بھر میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاں طلبہ یونین کے باقاعدہ انتخابات نہ ہوتے ہوں اور یہی وجہ ہے کہ وہاں جمہوریت کم از کم ایک بنیادی صورت میں موجود ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ طلبہ یونین ہی وہ سرخ و سبز گلستاں ہے، وہ نرسری ہے جہاں سے نہ صرف سیاسی و جمہوری قیادت اُبھرتی ہے بلکہ جس جگہ بھی طلبہ سیاسی عمل کا حصہ بنتے ہیں وہاں دیگر رفاہی کاموں کے لئے ان مفاد پرستوں کی ضرورت نہیں رہ جاتی جو این جی اوز بنا کر اپنے چہرے پر مال و زر کے طمانچے کھاتے رہتے ہیں۔

ایک ترقی پسند اور روشن خیال سماج کے قیام کے لئے اگر نوجوان طالب علموں کو ہی عضو معطل بنا کر رکھ دیا جائے تو ایک ایسا ہی سماج وجود میں آئے گا جِس طرح کے سماج میں ہمارے اجداد زمین پر رینگتے کیڑوں کی مانںد یا تو اپنے انجام کو پہنچ چکے ہیں یا پہنچنے والے ہیں، جہاں ہماری آج کی نسل سیاسی بیگانگی سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کر سماجی بے اعتنائی کا شکار ہو چکی ہے اور ہماری اگلی نسل تعلیمی اداروں میں فقط حصول روزگار کے لئے جاتی ہے۔

اگر تعلیمی اداروں میں طالبات کو کوئی جنسی ہراسانی کا نشانہ بناتا ہے تو باقی طلبہ و طالبات کو اس زیادتی کے خلاف کھڑے ہونے سے زیادہ اپنے اپنے گریڈ کی فکر لگی رہتی ہے۔ دور دراز سے آئے ہوئے پشتون، بلوچ اور سرائیکی کونسلز کے طلبہ کو جب ایک بنیاد پرست سیاسی جماعت کی بغل بچہ طلبہ تنظیم کے مسلح غنڈے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں تو بھی طلبہ و طالبات کے پاس ایسا کوئی پلیٹ فارم، کوئی ڈیسک یا کوئی ایسا دفتر موجود نہیں جہاں جا کر وہ اپنی آہ ہ فغاں ریکارڈ کروا سکیں۔ ہر موجودہ و گزشتہ حکومت اپنے اپنے سیاسی و معاشی مفادات کے لئے تعلیمی نصاب میں تبدیلیاں کر دیتی ہے جس کے باعث نصاب مکمل طور پر غیر سائنسی اور بنیاد پرستی پر مبنی ہو کے رہ جاتا ہے۔ یہ ایک ایسا نصاب ہو جاتا ہے جو ارتقاء کی اس منزل پر موجود دنیا سے کسی طور پر میل ہی نہیں کھاتا۔ لہٰذا ہمارا آج کا طالب علم یا تو اپنے ہی ملک میں قائدانہ صلاحیتوں سے محروم ہونے کے باعث پچھاڑ دیا جاتا ہے اور اگر اعلیٰ تعلیم کے لئے ملک سے باہر چلا جائے تو اس کو اپنی پوسٹ گریجویشن دوبارہ کرنی پڑتی ہے۔



بیسیوں ایسے مضامین جن کے ماہرین کی ملک کو ضرورت ہے ان کے ڈیپارٹمنٹ ہی موجود نہیں اور جو ڈیپارٹمنٹ ہیں ان میں ماہرین موجود نہیں مگر ان طاقت اور توانائی سے بھرپور طالب علموں کے پاس 'اطاعتِ اہلِ ستم' کے سوا کوئی چارہ نہیں کیونکہ منتخب شدہ طلبہ یونین ہی موجود نہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی اقامت گاہوں پر 'اہلِ حِکم' کا قبضہ ہے اور سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات کو بھی پرائیویٹ ہاسٹلوں میں دھکے کھانے پڑ رہے ہیں۔ پہلی 12 سال کی تعلیم کو وسیع البنیاد رکھنے کے بجائے بچوں کی اپنے مفادات کے مطابق ذہن سازی کی جا رہی ہے مگر کسے شکایت کریں کہ ان کی منتخب شدہ طلبہ یونین پر تو 9 فروری 1984 سے مسلسل پابندی ہے۔

تعلیمی اداروں تک رسائی کے لئے یا ٹرانسپورٹ کی عدم دستیابی کے ضمن میں تعلیمی اداروں کی اپنی ہی بنائی ہوئی کمیٹیوں کے پاس بھیج دیا جاتا ہے جو یا تو خود مجبور و محکوم ہیں یا انہی مذکورہ اہلِ حِکم و اہلِ ستم کی ساتھی بن چکی ہیں۔ کوئی طلبہ یونین موجود ہی نہیں جو ان مظالم کے خلاف آواز اٹھا سکے۔ تعلیمی اداروں کے گیٹوں پر مسلح اہل کاروں کی مِنت سماجت کر کے اگر طلبہ کے اہلِ خانہ کیمپس تک پہنچ بھی جائیں تو کلرک تشدد کرتے ہیں اور طلبہ کا کوئی نمائندہ ان کے بچاؤ کے لئے موجود نہیں ہوتا!

مزید براں طلبہ یونین نہ ہونے کے باعث 'طبقاتی نظامِ تعلیم' زینے کی طرح ایک طبقاتی سماج کو مستحکم کر رہا ہے۔ مدارس سے پڑھے ہوئے ان طلبہ کو بھی سماج میں ایک دہشت گرد کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جس نے کبھی بندوق اٹھائی ہی نہیں۔ اگلے پائیدان پر سرکاری تعلیمی اداروں کے طلبہ ہیں جہاں آج کوئی اپنا بچہ بھیجنا ہی نہیں چاہتا۔ پھر گلی محلوں کے وہ نجی تعلیمی ادارے ہیں جہاں تعلیم و تدریس کے سوا سب کچھ موجود ہے۔ پھر ذرا مہنگے تعلیمی ادارے جہاں ہمارے سماج کے لئے ایک 'معلق فرد' گھڑ دیا جاتا ہے جس کے پاؤں کیچڑ میں اور سر آسمان پر ہوتا ہے اور آخر میں ان مقتدر طبقات کے مہنگے نجی تعلیمی ادارے ہیں جہاں داخلے کے لئے بچوں کے اہلیت کے ٹیسٹ سے پہلے ان کے والدین کا انٹرویو کر کے ان کے بنک بیلنس کی ضمانت لی جاتی ہے۔ مگر یہ طبقاتی نظام تعلیم جو طبقاتی سماج کی پرورش کر رہا ہے کیا اس کے تقابل میں طلبہ و طالبات کا کوئی منتخب ادراہ ہے یعنی طلبہ یونینز؟ نہیں! کیونکہ اس فرسودہ نظام تعلیم کو دہایئوں سے پرورش دینے والے مقتدر طبقات کو اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کے سوا کسی سے کوئی دلچسپی نہیں، نہ سماج سے، نہ ملکی ترقی سے اور نہ اس ملک کے مستقبل سے۔

سندھ اسمبلی نے بھی نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن پاکستان کی ' طلبہ یونین بحالی' تحریک کے باعث جو 1984 کی 'صد روزہ تحریک' ہی کی ایک توسیع ہے، طلبہ یونین کی بحالی کا بل تو پاس کر دیا، اس سے قبل سینیٹ میں بھی طلبہ یونین بحالی کی قرارداد میاں رضا ربانی کی سربراہی میں منظور ہوئی، قومی اسمبلی میں بھی یوسف رضا گیلانی نے بطور وزیر اعظم طلبہ یونین کی بحالی کا اعلان کیا مگر طلبہ یونین پر تاحال پابندی عائد ہے۔

مطالبات

لہٰذا نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن پاکستان یکم فروری 2023 سے طلبہ یونین بحالی کے ضمن میں درج ذیل مطالبات منوانے کے لیے اوکاڑہ سے لاہور تک پیدل لانگ مارچ کا اعلان کر رہی ہے:

1۔ عام انتخابات یا لوکل باڈیز کے انتخابات سے پہلے طلبہ یونینز کے انتخابات کروائے جائیں تا کہ طبقاتی سماج کے بجائے ایک حقیقی 'عوامی جمہوری سماج' کی بنیاد رکھی جا سکے۔
2۔ مفت تعلیم کے بنیادی حق کے حصول کے لئے طلبہ و طالبات کے لئے طلبہ یونین کا پلیٹ فارم بحال کیا جائے۔
3۔ آبادی کے تناسب سے سرکاری تعلیمی اداروں میں اضافے کے حق کے حصول کے لئے طلبہ یونین بحال کی جائے۔
4۔ موجودہ سرکاری تعلیمی اداروں میں سائنسی بنیادوں پر استوار اعلیٰ تعلیمی معیار کے حصول کے لئے طلبہ یونین سے پابندی اٹھائی جائے۔
5۔ پہلے 12 سالوں میں وسیع البنیاد تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے طلبہ یونینز بحال کی جائیں۔
6۔ طلبہ و طالبات کے لئے ہاسٹلز، ٹرانسپورٹ اور لائبریریوں جیسی بنیادی ضروریات کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے طلبہ یونینز بحال کی جائیں۔
7۔ نصاب تعلیم کو عہد حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے ملک بھر میں طلبہ یونینز کے انتخابات منعقد کروائے جائیں اور نصاب ترتیب دینے کے لئے اساتذہ اور طلبہ کے منتخب نمائندے برابر تعداد میں کمیٹی میں شامل کئے جائیں۔

یکم فروری 2023 کو نیشنل فیڈریشن کا پیدل لانگ مارچ رینالہ خورد سے شروع ہو گا اور آگے بڑھتا ہوا پنجاب اسمبلی تک پہنچے گا۔ راستے میں جگہ جگہ مختلف علاقوں اور شہروں کے وفود بھی اس میں شامل ہوتے جائیں گے اور لاہور میں ٹھوکر نیاز بیگ پر مارچ میں شامل شرکا کا استقبال کیا جائے گا۔ اعلان کے مطابق 175 کلومیٹر کا فاصلہ آٹھ سے دس دن میں طے کیا جائے گا جس کے دوران روزانہ کی بنیاد پر مظاہرین 15 سے 20 کلومیٹر کا فاصلے طے کریں گے۔