سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی لاہور کی جانب سے کل بروز جمعرات، پریس کلب لاہور میں آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے پریس کانفرنس کی گئی۔ یاد رہے 27 نومبر کو ملک بھر میں طلبہ یکجہتی مارچ منعقد کیا گیا تھا جس کے بنیادی مطالبات طلبہ یونین کی بحالی، مفت تعلیم کی فراہمی، کیمپس پر ہراسگی کمیٹیوں کا قیام اور ملک بھر میں معیاری انٹرنیٹ کی فراہمی تھے۔
پریس کانفرنس میں گفتگو کرتے ہوئے، پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کی ترجمان کلثوم فاطمہ نے کہا کہ طلبہ کو اس وقت کیمپس پر بے شمار مسائل کا سامنا ہے جس میں بنیادی مسلئہ بھاری فیسیں اور ہراسگی ہے۔ پاکستان کا آئین ہر شہری کو مفت تعلیم کا حق دیتا ہے لیکن 70 سال گزرنے کے باوجود آج تک عوام کو یہ حق نہیں مل سکا۔ ہم اس حق کو عملی طور پر حاصل کرنے کے لیے ہی سڑکوں پر نکلے تھے۔ لیکن ابھی تک حکومت کی جانب سے کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ انھوں نے کہا غریب طلبہ کے لیے فیس دینا ہمیشہ سے مشکل رہا ہے لیکن موجودہ صورتحال کے باعث تو یہ ناممکن ہو چکا ہے اور حکومت کوئی تعلیمی پیکج دینے کی بجائے فیسوں میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ کیمپس پر طالبات کو ہراساں کیے جانے کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے لیکن اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے مناسب ڈھانچہ موجود نہیں۔ یہ مسائل اس لیے ہیں کیونکہ فیصلہ سازی میں طلبہ کی نمائندگی نہیں۔ اس لیے ہم فی الفور طلبہ یونین کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے کنوینر مزمل خان نے کہا کہ ملک کے 40 سے زائد شہروں میں طلبہ کی جانب سے احتجاج کیا گیا ۔ کیونکہ طلبہ کو مسائل کا سامنا تو تھا ہی لیکن موجودہ حالات میں فیسوں اور پسماندہ علاقوں میں انٹرنیٹ کی عدم دستیابی نے طلبہ کی زندگیوں کو تباہ کر دیا ہے۔ اس لیے طلبہ یکجہتی مارچ میں طلبہ نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ان کے 17 مطالبات فی الفور تسلیم کیے جائیں۔ لیکن نہ حکومت نے ہمارے مطالبات پر کوئی ردعمل نہیں دیا جو کہ نہ صرف افسوسناک بلکہ تشویش ناک ہے۔
سماجی تنظیم حقوق خلق موومنٹ کے رہنما ڈاکٹر عمار علی جان نے کہا کہ تعلیمی ادارے بند ہونے کے باوجود اس مارچ میں نہ صرف طلبہ کی بڑی تعداد بلکہ تمام محنت کش تنظیموں ، ٹریڈ یونینز، کسان تنظیموں، مزدور تنظیموں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوام تعلیم کے بارے میں کتنے زیادہ سنجیدہ لیکن تنگ ہیں۔ لیکن حکومت کا ان مطالبات کو نظر انداز کرنا حکومت کے تعلیم کے بارے میں رویے کا غماز ہے۔ انھوں نے کہا کہ وہ طلبہ کے مطالبات کی نہ صرف حمایت کرتے ہیں بلکہ ان مطالبات کے حصول کے لیے ہمیشہ ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں، کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس کمر توڑ مہنگائی کے دوران کیے جانے والے ان کے مطالبات بالکل درست ہیں۔
آخر میں پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کے صدر محسن ابدالی نے آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی جانب سے ہمارے مطالبات کے جواب میں کوئی ردعمل نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے ہم اگلا قدم اٹھانے پر مجبور ہیں۔ لیکن ہم حکومت کو مزید ایک مہینہ کا وقت دے رہے ہیں۔ اگر ایک مہینہ میں طلبہ یونین بحال نہیں کی جاتی تو ہم بھوک ہڑتال یا دھرنہ دینے جیسے بڑے فیصلے کر سکتے ہیں ، ہمیں محاز آرائی پر مجبور نہ کیا جائے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو تمام پسے ہوئے طبقات کی جدوجہد کی حمایت کرتی ہے اور آپ ہمیشہ ہر جدوجہد میں پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کو پہلی صف میں کھڑا ہوا پائیں گے اور یہ جدوجہد ہر طرح کی طبقاتی، جنسی، علاقائی اور لسانی نابرابری اور استحصال کے خاتمے تک جاری رہے گی۔