اب پرندے درختوں کی شاخوں پر نہیں بلکہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر اپنے گھونسلے بناتے ہیں۔ جنگل اب صدیوں پرانے قبرستان کا منظر پیش کر رہا ہے۔ پرندوں کی چہچہاہٹ ہفتوں تک سنائی نہیں دیتی، اور وہاں کٹے درختوں کی خشک جڑوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ دو سال پہلے تک تو یہاں سب کچھ موجود تھا، مگر ہاؤسنگ سوسائٹی کی تعمیر نے سب اجاڑ دیا۔
اب وہاں تعمیراتی مشینوں کی گڑگڑاہٹ دور دراز رہنے والے جانوروں کی زندگی میں خلل ڈالتی ہے۔ اس سال بے موسمی بارشوں نے ہاؤسنگ سوسائٹی کے قریب برسوں سے آباد کچی بستی کو تباہ کر دیا۔ اس بستی سے گزرنے والی واحد کچی سڑک اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ بارشوں کے دوران اس راستے سے گزر کر علاج کے لیے بھی نہیں جا سکتے۔ یہاں کے باسیوں کی فصلیں بھی بارشوں سے تباہ ہو گئیں، جو ان کا واحد ذریعہ معاش تھیں۔
اب اس بستی کے بیشتر لوگ اس نئی ہاؤسنگ سوسائٹی میں مزدور کے طور پر کام کر رہے ہیں، اور خواتین بڑی عمارتوں میں رہنے والوں کے گھروں میں صفائی کرتی ہیں۔ موسم کی شدت نے لاہور میں رہنے والے خاندانوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ دھند نے گلے کی خرابی، سر درد اور خشک ہونٹوں جیسی تکالیف کو جنم دیا ہے، مگر وہ خود بھی سمجھنے سے قاصر ہیں کہ انہیں کیا ہو رہا ہے۔
کچھ دن پہلے انہوں نے اپنے ریٹائرڈ برگیڈیئر چچا سے بات کی، جنہوں نے انہیں نئی ہاؤسنگ سوسائٹی میں سردیاں گزارنے کا مشورہ دیا، جہاں ابھی تک موسم خوشگوار ہے۔ وہاں کے سادہ لوگ اس تباہی کو اپنے گناہوں کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔
کچھ دن پہلے تین پبلک بسیں شدید دھند کی وجہ سے حادثے کا شکار ہوئیں، جن میں دو درجن سے زائد افراد کی جانیں ضائع ہوئیں۔ ملک میں ہر شخص ماحولیاتی تبدیلیوں سے پریشان نظر آتا ہے، مگر کسی کے پاس اس کا کوئی حل نہیں۔
پچھلے سال وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے دنیا بھر سے امداد جمع کی، مگر متاثرہ خاندانوں تک یہ امداد نہ پہنچ سکی۔ سندھ کے جاگیرداروں نے راشن اور دیگر اشیا ہضم کر لیں۔ اس کی رپورٹنگ کرنے والے صحافی نصر اللہ گڈانی کو شہر کے بیچ دن دیہاڑے مار دیا گیا، اور اس کے قاتل ابھی بھی آزاد گھوم رہے ہیں۔
اس سال حکومت پنجاب نے اپنے آدھے ملازمین کو گھر سے کام کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا، مگر ساتھ ہی 10 نئی ہاؤسنگ سوسائٹیز کا اعلان بھی کیا ہے، جن میں کسانوں اور صحافیوں کو پلاٹ دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ایک طرف حکومت اور ریاستی ادارے ہاؤسنگ سوسائٹیز بنا رہے ہیں، اور دوسری طرف ماحولیاتی نظام کی بحالی کے اعلانات کیے جا رہے ہیں۔
کوئٹہ جیسے خشک شہر میں، جہاں پہلے سے پانی کی قلت ہے، سبزے کی کمی کی وجہ سے خشک سالی بڑھتی جا رہی ہے۔ دارالحکومت میں عام انسانوں کے لیے رہنا مشکل ہو گیا ہے؛ وہاں ایک بستی کو تباہ کر کے ڈی ایچ اے بنایا گیا ہے۔
پاکستان میں 10 کچی آبادیوں کو اجاڑ کر ایک حکومتی شخص کو گھر دیا جا رہا ہے، مگر یہ جانے بغیر کہ بے موسمی بارشوں سے آنے والے سیلاب پورے ملک کی فصلیں تباہ کر سکتے ہیں۔ پھر ہماری ریاست چندہ مانگنے کے لیے اقوام عالم کے آگے جھکے گی۔ عوام کو ضیاء الحق کے دور سے مذہبی نعروں میں الجھا کر اس بیداری سے دور رکھا گیا ہے کہ انسان کے ہاتھوں قدرت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہی اصل تباہی کی وجہ ہے، مگر اسے خدا کا عذاب سمجھا جاتا ہے۔
حکومت کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے مسائل کا جلد حل نکالنا ہو گا۔ درختوں کی کٹائی روک کر درخت لگانے کی مہم شروع کرنی چاہیے۔ شمسی اور ہوا کی توانائی کے منصوبوں کو فروغ دینا چاہیے۔ پانی کی بچت اور استعمال میں بہتری کے لیے جدید ٹیکنالوجی اپنانی چاہیے، جیسے کہ بارش کا پانی جمع کرنا۔ پلاسٹک کی تھیلیوں اور غیر بائیو ڈیگریڈیبل مواد پر پابندی لگانی چاہیے تاکہ زمین اور سمندروں کو آلودہ ہونے سے بچایا جا سکے۔ عوام میں ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات اور ان کے حل کے حوالے سے آگاہی بڑھانے کے لیے بھی حکومت کو مہمات چلانی چاہئیں۔
سب سے بڑھ کر ماحولیاتی قوانین کو سختی سے نافذ کرنا اور ان کی نگرانی ضروری ہے تاکہ صنعتی آلودگی اور دیگر مسائل کو کنٹرول کیا جا سکے۔ ہاؤسنگ سوسائٹیز بنانے کے بجائے ماحولیاتی بحران کے حقیقی حل پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔