کلائمیٹ چینج؛ بروقت منصوبہ بندی نہ کی گئی تو گوادر ملیامیٹ ہو جائے گا

حالیہ بارشوں کو ہوئے تین روز گزر گئے ہیں مگر شہر کے گلی کوچوں میں اب بھی پانی جمع ہے اور گوادر کے مکین چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہمارے گھروں سے پانی نکالا جائے کیونکہ اس وقت گوادر میں سردی کی لہر میں بھی اضافہ ہو چکا ہے اور خدشہ ہے کہ وبائی امراض نہ پھوٹ پڑیں۔

کلائمیٹ چینج؛ بروقت منصوبہ بندی نہ کی گئی تو گوادر ملیامیٹ ہو جائے گا

تین اطراف میں نیلگوں سمندر اور ایک طرف خشکی، گوادر میں آج سے چند سال پہلے تک کسی کو یہ گمان بھی نہیں تھا کہ ایک دن ہم پانی میں ڈوبیں گے اور بارشیں اتنی برسیں گی کہ سب کچھ پانی میں ملیا میٹ ہو جائے گا۔

گوادر پورٹ کے قیام اور سی پیک میں شراکت داری کا خواب یہی ہو گا کہ گھروں میں پانی ہی پانی ہو گا۔ گوادر میں موجودہ تیز رفتار ترقی سے پہلے مچھیرے خوش تھے یا غمگین، ابھی تو ہر افسردہ چہرہ یہی کہہ رہا ہے کہ ہمیں ایسی ترقی کی ضرورت نہیں ہے کہ ہم پانی میں ڈوب کر مریں۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے کلائمیٹ چینج سے نمٹنے کے لئے نا صرف پہلے سے منصوبہ بندی کی ہے بلکہ ترقی پذیر ممالک کو خبردار بھی کیا ہے کہ آنے والی کچھ دہائیوں میں کلائمیٹ چینج کے اثرات کئی شہروں کو نیست و نابود کر دیں گے۔ پاکستان تو اس حوالے سے پہلے ہی سے ریڈ لسٹ میں شامل ہے جہاں مکران کے ساحلی علاقوں میں گذشتہ چند سالوں سے رونما ہونے والی تبدیلیاں اس جانب اشارہ کر رہی تھیں۔

دنیا بھر میں ترقیاتی منصوبوں سے پہلے منصوبہ بندی کی جاتی ہے کہ ترقی کے منفی اثرات عام عوام کو نقصان نہ دیں۔ گوادر میں ترقیاتی منصوبوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اس شہر میں پہلے ترقیاتی منصوبوں پر کام کیا گیا ہے اور منصوبہ بندی کرنے کے لیے شاید یہاں کے اداروں کو وقت ہی نہیں ملا۔

تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

میرین ڈرائیو اور ایکسپریس وے بناتے وقت یہ خیال بھی نہیں آیا کہ ڈرینیج سسٹم اور سیوریج سسٹم کو ایسا بنایا جائے کہ آنے والی قدرتی آفات سے نمٹا جا سکے۔ میرین ڈرائیو پر خوبصورت لائٹس لگاتے ہوئے بھی یہ خیال کسی کو نہیں آیا کہ ملا فاضل جو کبھی گوادر کی شان ہوا کرتا تھا، سطح سمندر سے کتنا نیچے چلا گیا ہے۔

فروری کے مہینے میں سردی کی لہر ویسے بھی ساحلی علاقوں سے دور چلی جاتی ہے اور اس موسم میں بارشیں بہت کم ہوتی ہیں۔ موسمی تبدیلیوں اور تغیرات کے اثرات ہیں کہ فروری میں گوادر میں بے موسمی بارشیں ہوتی ہیں۔ نومبر میں پسنی میں اولوں کی برف باری ہوتی ہے۔ حالانکہ ایک سال پہلے یہ بارشیں لسبیلہ اور جعفر آباد میں اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر چلی گئی تھیں۔

پھر بھی ہمارے ذمہ دار ادارے ہر چیز کو قدرت کا قانون سمجھ کر آنکھ بند کر لیتے ہیں اور عارضی طور پر ریلیف اور بحالی کے نام پر چند پیکٹ راشن اور چند ہزار ٹینٹ متاثرین کے حوالے کرنے کے بعد منصوبہ بندی کے بارے میں سوچتے تک نہیں۔

جب موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات براہ راست گوادر اور قرب و جوار پر پڑ رہے ہیں تو اب منصوبہ بندی کی ضرورت ہے کیونکہ امکان یہی ہے کہ آنے والے دنوں میں اس سے بڑی تباہی آ سکتی ہے۔ سب کچھ ملیا میٹ ہو سکتا ہے۔ ویسے بھی گوادر کے ساحلی علاقوں کو ایک طرف سمندری طوفانوں کا سامنا ہے تو دوسری طرف کلائمیٹ چینج کی وجہ سے آنے والی قدرتی آفات کا۔

حالیہ بارشوں کو ہوئے تین روز گزر گئے ہیں مگر شہر کے گلی کوچوں میں اب بھی پانی جمع ہے اور گوادر کے مکین چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہمارے گھروں سے پانی نکالا جائے کیونکہ اس وقت گوادر میں سردی کی لہر میں بھی اضافہ ہو چکا ہے اور خدشہ ہے کہ وبائی امراض نہ پھوٹ پڑیں۔

اب بھی وقت ہے کہ کلائمیٹ چینج کے اثرات سے نمٹنے کے لیے منصوبہ بندی کی جائے تا کہ کلائمیٹ چینج کے نقصان سے بچا جا سکے۔ گوادر جیسے ترقی پذیر شہر کو بچانے کے لیے ضروری ہے کہ مربوط منصوبہ بندی کر کے اس شہر کے باسیوں کو آنے والی قدرتی آفات سے بچایا جائے ورنہ سب کچھ ملیا میٹ ہو جائے گا۔